کل تک عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کر رہے تھے انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو آرمی چیف نواز شریف کی مشاورت سے تعینات ہو گا یہ اس سے یقین دہانی لیں گے کہ عمران خان کو نا اہل کروایا جائے اب نہ جانے کیا ہوا کہ اب خان صاحب کہہ رہے ہیں یقین ہے جو بھی آئے گا وہ عوام کے خلاف نہیں جائے گا ہم آرمی چیف کی تعیناتی پر پیچھے ہٹ گئے ہیں عمران خان کے موقف میں اچانک تبدیلی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو انھیں کسی سیانے نے سمجھایا ہو گا کہ آپ جو مرضی کر لیں اس کا آئینی طریقہ کار موجود ہے اور سارا کچھ طے شدہ اصولوں کے مطابق ہونا ہے لہذا آپ کو خاموشی اختیار کرلینی چاہیے اگر آپ ایسا کریں گے تو آنے والے آرمی چیف کی خواہ مخواہ ناراضی مول لے لیں گے دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو اعتماد میں لیا گیا ہو کہ آپ تعیناتی کے معاملے کو متنازعہ نہ بنائیں اور ان کے خدشات دور کر دیے گئے ہوں اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہنے کا وعدہ کرتی ہے تو اس میں بھی عمران کو فائدہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر اس کا اعلان کر چکی پھر سب سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ موجودہ محاذ آرائی کسی کو سوٹ نہیں کرتی ملک کا بہت نقصان ہو رہا ہے ایسے میں آخر کار معاملات نے طے ہونا ہے الیکشن بھی ہونے ہیں اس لیے نئے آرمی چیف کو سب سے زیادہ اپنے ادارے کی ساکھ اور وقار کا معاملہ درپیش ہو گا ان کی کوشش ہو گی کہ فوج کو تنازعات سے باہر رکھا جائے حالات پل صراط سے گزرنے جیسے ہیں اس لیے سیاستدانوں کو بھی مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی طرف لایا جائے گا اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے توقع ہے کہ نئی تعیناتی کے بعد معاملات سمٹنا شروع ہو جائیں گے حکومت کی کوشش ہے کہ وہ عمران خان کو کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ عمران خان بھی دوسرے سیاستدانوں جیسا ہے تاکہ اس کی پاپولریٹی میں کمی لائی جا سکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف عوام میں کیس پیش کیا جا سکے اس کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں دوبئی کے ایک تاجر کی تحفے خریدنے کی جو کہانی سامنے آرہی ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک پہلو تو قانونی ہے اور دوسرا اخلاقی ہے اگر قانونی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ عمران خان نے قانون کے مطابق رقم جمع کروا کر توشہ خانہ سے تحائف حاصل کیے جب ایک مخصوص رقم دے کر ہی تحائف خریدے گئے تو وہ قانونی طور پر عمران خان کی ملکیت تصور ہوں گے وہ یہ تحفے کسی کو آگے گفٹ کر دیں کسی کو فروخت کر دیں ان پر کوئی قدغن نہیں وہ اسے اندرون ملک فروخت کریں یا بیرون ملک اس پر بھی کوئی پابندی نہیں موجودہ کہانی کی اگر کڑیاں ملائی جائیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے عمران خان نے پاکستان میں جس کو تحائف فروخت کیے اس سے مذکورہ شخص عمر فاروق مرزا نے خرید لیے ہوں اور اس پر کوئی کہانی گھڑی جا رہی ہو ہو سکتا ہے کہ عمر فاروق بھی کسی مجبوری میں استعمال ہو رہا ہو اس ایشو پر سیاست کرنے والوں کو بھی پتہ ہے کہ اس پر عمران خان کو پکڑا نہیں جا سکتا البتہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عمران خان نے مہنگے داموں فروخت کرکے اس کو انکم ٹیکس گوشواروں میں کم ظاہر کیا ہے اور الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیا تو پھر کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ تقاضے پورے کیے گئے ہیں تو قانونی طور پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی البتہ اس سارے ایشو کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے کاش نیٹ کلین عمران خان نے یہ کام نہ کیا ہوتا اخلاقی طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان یہ تحفے اپنے پاس رکھ سکتے تھے لیکن آگے فروخت کرنا درست اقدام نہیں حالانکہ ماضی کے تمام حکمران توشہ خانہ سے اس سے قیمتی قیمتی تحائف چند ٹکوں کے عوض لے جاتے رہے ہیں عمران خان نے تو پہلے ان کی قیمت کا 20 فیصد اور پھر 50 فیصد قومی خزانے میں جمع کروا کر تحائف حاصل کرنے کی پابندی لگا دی ہے اگر عمران خان نے پیسے کمانے کی نیت سے ایسا کرنا ہوتا تو ان کے پاس ایسے ہزاروں طریقے تھے کسی ایک بڑے پراجیکٹ میں اربوں روپے کی کمیشن لی جا سکتی تھی لیکن آج تک مالی بدعنوانی کا کوئی ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا اس کے برعکس ماضی کے حکمرانوں پر اربوں روپے کے مالی فوائد حاصل کرنے بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں بلکہ انھیں آج تک ان الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس ایشو پر پی ڈی ایم کی ساری سیاسی جماعتوں نےعمران خان پر چڑھائی کر رکھی ہے وہ عوام میں عمران خان کو بدعنوان ثابت کرکے اپنی صفوں میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں الیون پلینگ فیلڈ میسر آسکے لگتا ہے کہ اس سارے معاملے میں عمران خان کو کسی نے مروایا ہے اگر عمران خان کو پیسے کا لالچ ہوتا تو قانونی طور پر جمائما کی پراپرٹی سے قانونی طور پر ملنے والے اربوں ڈالر لینے سے انکار نہ کرتا مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ایک گاوں کے کسی بندے نے کھیتوں میں پانی لگا رکھا تھا گرمیوں کے دن تھے کھالے کے ساتھ چھوٹا کچا راستہ تھا وہاں سے گزرنے والی چند مسافر خواتیں نے اپنا زیور اتارا اور ایک گٹھڑی بنا کر ایک جھاڑی کے پیچھے رکھ کر نہانے لگ پڑیں وہ نہا کر دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئیں اس کسان نے کھالے پر چکر لگایا تو اس نے جھاڑی کے پیچھے گھٹڑی پڑی دیکھی اس میں کافی زیورات تھے اسے خیال آیا کہ یہ یہاں سے گزرنے والی خواتین کے ہیں وہ کئی میل تک بھاگ کر خواتین کے پاس پہنچا اور انھیں کہا کہ بیبیوں آپ کوئی چیز تو نہیں بھول آئیں وہ رونے لگیں کہ ہائے ہمارا زیور وہاں رہ گیا ہے اس شخص نے وہ زیور ان خواتین کے حوالے کیا اور واپس اپنے کھیتوں میں آگیا اس دوران اس کے ڈیرے کا ایک بندہ اپنی تہمند کی ڈب سے چار آنے سائیڈ پر رکھ کر نہا رہا تھا اس کسان نے مذاق کرنے کی نیت سے چار آنے اٹھا کر جیب میں ڈال لیے اس آدمی نے کسان سے پوچھا تم نے میرے پیسے اٹھائے ہیں اس نے کہا نہیں دو چار بار پوچھنے پر وہ ناں کرنے سے پھنس چکاتھا اس بندے نے کہا کہ تم قسم اٹھاو کہ تم نے میرے پیسے نہیں اٹھائے اس بیچارے کو قسم اٹھانی پڑ گئی اللہ سے ہروقت ڈرتے رہنا چاہیے
220