336

عائلی نظام اور ہماری نئی نسل

نکاح کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت قرار دیا ہے۔ آج بھی بچپن کے وہ دن یاد آتے ہیں جب والدین کے ساتھ کسی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے جاتے تھے تو ایک عجیب خوشی کا سماں ہوتا تھا۔دیہاتی اور شہری تقریبات میں ایک نمایاں فرق سا محسوس ہوتا تھا۔ دیہاتوں میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں سادگی کا ایک ایسا احساس ہوتا جو اندرونی خوشی کا باعث بنتا اور ایسی تقریب کی یاد مہینوں ذہںن سے محو نہ ہو سکتی۔ شہروں میں شادی کی تقریبات کا علیحدہ لطف تھا۔میرج ہال تھے نہیں اور شادی کی تقریبات بھی تو پورا ہفتہ چلتی تھیں۔بزرگوں اور رشتےداروں کا روٹھنا چھوٹوں کا انہیں منانا۔بزرگوں کا مان جانا اور بچوں کی خوشی میں خوش ہو جانا اور اپنے دلوں کو ہر قسم کی کدورت سے پاک رکھنا ماضی میں اچھے رشتوں کی پہچان رہا ہے۔

عائلی نظام دنیا کے معاشروں میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔عائلی تقاریب کو خاص مذہبی انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک خاص روحانیت ہے جو اس رشتے کو تقدس اور تعظیم عطا کرتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو اولاد جیسی نعمت اور رحمت سے نوازتا ہے۔ اولاد انسان کیلئے دنیا میں ایک امتحان ہے۔والدین اگر اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں تو اچھی اور نیک اولاد رحمت اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ اگر ناکام ہو جائیں تو اولاد دکھوں اور بدنامیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرنا والدین کا فرض ہے اور اولاد کا حق ہے۔ فرض کی ادائیگی لازم ہے جو والدین اپنے اس فرض سے کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اولاد کو اس کے جائز حق سے محروم رکھتے ہیں تو اس کا خمیازہ انہیں دنیاوآخرت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت کے لئے والدین کا باشعور ہونا ضروری ہے۔

نئی نسل کی معاشرتی بے راہروی کی ایک وجہ غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں بھی ہیں جو ہماری ثقافت، رسم ورواج اور اسلامی تشخص کو خاص طور پر خطرناک موڑ پر لے آئے ہیں۔ اگر ہم اپنی ثقافت اور رسم ورواج کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر روک لگانا ہو گا۔ یہ صرف حکومتی زمہ داری نہیں بلکہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ انفرادی طور پر اگر اس ثقافتی یلغار جو کہ ہمارے دو قومی نظریے سے بھی میل نہیں کھاتی اس پر ایک اخلاقی روک لگا دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ انفرادی کوششیں رنگ لائیں اس طرح اجتماعی طور پر بھی اس یلغار سے اپنے نوجوانوں کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ فرد معاشرے کی بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔ انفرادی کوشش سے ہی اجتماعی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ غیر ملکی فلموں اور ڈراموں کے زریعے ہم اپنا زرمبادلہ ایک فضول کام پر ضائع کرتے ہیں جس سے ہمیں کوئی قومی مفاد حاصل ہونے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔نقصان بھی ایسا جس کی تلافی آئیندہ کئی نسلوں تک ممکن نہ ہو سکے۔

پاکستان کے دو قومی نظریے کی بنیاد ہی مسلم تشخص کو اجاگر کرنا ہے۔ مسلمانوں کے لئے ایسا ملک جہاں قرآن وسنت کے مطابق زندگی کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کو آزاد کرانے کے بعد ہم اپنے راستے سے ہٹ گئے جس کی وجہ سے دو قومی نظریہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ آج ہماری نئی نسل اسلامی اصولوں، قوانین اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ناآشنا ہو کر غیر ملکی میڈیا کی مادر پدر آزادی کو اپنا رہی ہے۔ کتنے والدین ہیں جو اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ لوگوں کو قومی ترانہ یاد نہیں۔ ارباب اختیار میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو قرآن پاک کی سب سے چھوٹی سورتیں جو کہ نماز میں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں۔زبانی سنانے سے قاصر ہیں۔ اس تمام تناظر میں ہم عام عوام سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔

آج نوجوان نسل ناجائز محبتوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔ جس کا درس خود ہمارا میڈیا غیر ملکی میڈیا کی نقالی کی صورت میں دے رہا ہے۔جو خاندان عدالتوں اور تھانوں میں جانا اپنے لئے بدنامی تصور کرتے تھے۔ آج اولاد کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل عام ہو چکے ہیں۔ ایسی لڑکیاں جو پسند کی شادی کے چکر میں اپنے گھروں کو رات کے اندھیروں میں چھوڑتی ہیں پھر نہ تو خاندان ان کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں ان کی کوئی عزت رہتی ہے۔ دارلامان ایسی بہت سی لڑکیوں سے آباد ہیں جو اپنے والدین، رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کو محبت کے نام پر چھوڑ کر آئی ہیں۔

نوجوان نسل کو سمجھنا چاہیئے کہ شادی بیاہ ایک نازک معاملہ ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لئے۔ پسند کی شادی جائز ہے ناجائز نہیں۔ مگر کسی سرپرست یعنی ولی کی نگرانی میں۔ ولی کی اجازت کے بغیر اسلام میں کنواری لڑکی کا نکاح معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی مذہبی طور پر اس کی اجازت ہے۔ البتہ کسی وجہ سے رشتۂ ازدواج برقرار نہیں رہتا تب دوسرے نکاح کے لئے عورت اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کر سکتی ہے کیونکہ اب وہ اپنے فیصلے میں خود مختار ہے۔ اس سے معاشرے میں خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی اسلامی تشخص کا نمونہ ہونگی۔

آئے روز غیرت کے نام پر ہونے والی وارداتیں ہمارے معاشرے پر کیا اثر ڈال رہی ہیں؟ اس بارےمیں اہل دانش اور ارباب حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے علماء اس معاملے میں معاشرے کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ محبت اور عشق کے معاملات کو مذہبی انداز میں سمجھنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ لکھنے والوں کو اس بارےمیں زیادہ سے زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس بارےمیں سوچیں اور ایک قومی و سماجی سوچ پروان چڑھے۔ ہماری آنے والی نسلیں ان عدالتی شادیوں سے بچیں اور اپنے بچوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق پرورش کر سکیں۔

ملک میں عائلی قوانین کو مذہبی سانچوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی عائلی قوانین سے غیر ضروری رسم ورواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریب کی بیٹی بھی عزت کے ساتھ گھر سے رخصت ہو۔ اس سلسلے میں ہمارے میڈیا خاص طور پر اخبارات و جرائد کو پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں اس امر کی خاص طور پر نشان دہی لازم ہے۔ یہ میڈیا انسانی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں