265

سفید جھوٹ

ہمارے ہاں جھوٹ بولنے کو برا نہیں سمجھا جاتا اور لوگ اچھائی کی باتیں سمجھانے کیلئے بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک واقعہ بہت مشہور ہے جس میں محترم اشفاق احمد صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ اٹلی میں کسی کام سے عدالت جانا پڑا اور وہاں انہوں نے جب ایک استاد کے طور پر اپنا تعارف کروایا تو جج سمیت تمام لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہوگئے۔ موصوف اس واقعہ کو سنا کر بتاتے ہیں کہ ان لوگوں نے جتنی ترقی کی ہے وہ استاد کی عزت کر کے کی ہے۔ 
یہ واقعہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ اٹلی یورپ کے کرپٹ ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کوئی بھی کام رشوت سے کروانا مشکل کام نہیں ہے۔ یہاں کرپشن کی وجہ سے غربت کافی زیادہ ہے۔ چوری، ڈاکے، گاڑیوں کے شیشے توڑنے اور موبائل چھیننے جیسے واقعات عام ہیں۔ 
اٹلی کے بارے میں سویڈن اور باقی ترقی یافتہ یورپین ممالک کے لوگوں کی رائے ہے کہ جب آپ کسی اٹالین سے ہاتھ ملائیں تو بعد میں اپنی انگلیاں ضرور گِن لیں۔ ? 
یورپ میں گورے اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتے تو استاد کی کیا کریں گے۔ یہاں ہر بندہ اپنی اپنی نوکری کر رہا ہے اور اسکے عوض پیسے لے رہا ہے۔ برطانیہ میں سر اور میڈم کہنے کا رواج ہے اور یہی کلچر وہ برصغیر میں بھی چھوڑ کر آئے ہوئے ہیں۔ 
یورپ میں ہر بندے کا ڈائریکٹ نام لیا جاتا ہے چاہئے وہ بچہ ہو، بڑا ہو یا بوڑھا۔ یہ یہاں کا کلچر ہے۔ 
یورپ کے جن ممالک نے ترقی کی ہے وہ استاد کی عزت سے نہیں بلکہ ایمانداری کے اصول اپنا کر کی ہے۔ تھرڈ ورلڈ اور فرسٹ ورلڈ میں صرف کرپشن اور بے ایمانی کا فرق ہے اگر آج تھرڈ ورلڈ میں کرپشن اور بے ایمانی ختم کر دی جائے تو وہ تھرڈ ورلڈ نہیں رہے گی بلکہ فرسٹ ورلڈ کے برابر آجائے گی۔ 
(طارق محمود)

اپنا تبصرہ بھیجیں