198

قانون، میرٹ اور محنت۔

جس معاشرہ سے قانون، میرٹ اور محنت رخصت ہو جائیں وہ اک ایسے جسم کی مانند رہ جاتا ہے جس کے اہم ترین اعضاء نکال لئے گئے ہوں۔ دو تین روز قبل آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ مکمل کرنے والے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا …..’’قانون اور میرٹ کی حکمرانی پر یقین رکھیں اور شارٹ کٹس سے بچیں یعنی محنت پر بھروسہ کریں‘‘ کاش ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈرز کو بھی اس طرح کی باتیں کرنے کی توفیق ہو لیکن انہیں گپیں ہانکنے، سبز باغ دکھانے، نعرے بازی، جھوٹ بولنے، گالم گلوچ، الزام تراشیوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔

یہ وہ لوگ ہیں جو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کھانے پر ٹوٹ پڑنے والے بھوکے ننگے ہجوم کو خوشحالی اور ترقی کے افسانے سناتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئوں کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی خوشخبریاں سناتے ہیں جس کے نتیجہ میں پیغام یہ جاتا ہے کہ ننگے چٹے سفید جھوٹ بولنا قابل قبول ہی نہیں قابل ستائش بھی ہے۔ عوام بیچارے اپنے حکمرانوں کا عکس ہوتے ہیں اورجب حکمران ہی سر عام جھوٹ در جھوٹ بیچ کر بدکرداری کو پروموٹ کررہے ہوں کہاں کی قوم سازی اور کردار سازی؟ میں نے بیسیوں بار لکھا ہے کہ لیڈر دراصل ٹیچر ہوتا ہے اور ٹیچر کی نظر اپنی مقبولیت نہیں اپنے بچوں کے مستقبل پر ہوتی ہے لیکن یہ جھوٹے مینڈیٹ اور جعلی مقبولیت کے مارے ہوئے ڈنگ ٹپائو ڈرامے اور نو ٹنکیاں’’ووٹ‘‘ سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو عموماً ’’بڑا لیڈر‘‘ مانا جاتا ہے۔ یقیناً وہ حاضر سروس گامے ماجھے ان سیاستدانوں سے کہیں زیادہ لائق فائق اور پڑھا لکھا شخص تھا لیکن برا ہو ہمارے سیاسی کلچر کا کہ اس کی نظرو ںمیں بھی ذاتی مقبولیت ہی پہلی ترجیح تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم میں اپنے ’’حقوق‘‘ کا شعور تو بیدار ہوا لیکن ’’فرائض‘‘ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا کسی کو یاد نہ رہا، سو آج ہم سب کو اپنے حقوق تو یاد ہیں، فرائض کی پروا نہیں یعنی ایک ایسا معاشرہ جس کے ترازو کا ایک پلڑا ہی غائب ہے۔لیڈر باپ کی مانند ہوتا ہے۔ سونے کا نوالہ لیکن شیر کی آنکھ لیکن یہاں لیڈر وہ ہے جو قانون کی دھجیاں اڑانے کی مثال قائم کرتا ہے۔ یہ اپنے گھروں کے باہر ’’تجاوزات‘‘ کے بعدتوقع رکھتے ہیں ملک میں تجاوزات کا کلچر پروان نہ چڑھے گا۔ 
یہ میرٹ کو بری طرح روند کر اپنے چمچوں کڑچھوں کو نوازنے کے بعد امید کرتے ہیں یہاں میرٹ کا کلچر پروموٹ ہوگا، چنڈال چوکڑیاں بے حیائی کے شارٹ کٹ مار کر منزل مراد تک پہنچتی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائیاں کرنے والی لیڈر شپ سوچتی ہے قوم ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ والے قول کو یاد رکھے گی۔ پاناما کیس کے دوران کچھ لوگوں کی ’’پرفارمنس‘‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ان کی وزارتوں کا ’’میرٹ‘‘ کیا ہے؟ ان کی ’’محنت‘‘ کیسی تھی؟ اجر اور انعام کس بات پر تو پھر یہی رول ماڈلز نہ ہوں گے تو کیا ہوگا؟ کیا ان میں سے کسی نام نہاد سیاسی قیادت کو اندازہ ہے کہ اس انداز کی فیصلہ سازی کے اجتماعی نفسیات پر اثرات کتنے زہریلے اور بھیانک ہوتے ہیں؟ ایسی غلط بخشیوں کے سائیڈ ایفکٹس اور آفٹر ایفکٹس کس قسم کے ہوتے ہیں۔
جنرل باجوہ نے جو کہا اس کو مسلسل ہیمر کرنے کی ضرورت ہے۔ قیادتیں سیاسی ہوں یا مذہبی اور فکری …..قانون، میرٹ اورمحنت کی حکمرانی کا یہ ورد جاری رہنا چاہئے اور ہر قسم کی لیڈر شپ کوذاتی مثالوں سے انہیں مضبوط کرنا چاہئے۔ یہ جملہ ہمارے معاشرے پر سو فیصد فٹ بیٹھتا ہے۔
“THE ARM OF THE LAW NEEDS A LITTLE MORE MUSCLE”
اور جو ولیم پٹ نے کہا”WHERE LAW ENDS, TYRANNY BEGINS” چشم بدور نااہل شریف نے اس کی بہترین مثال قائم کردی ہے۔ رہ گئی محنت جو معاشرہ سے مدت ہوئی شارٹ کٹس کے سب روٹھ گئی۔
“SUCCESS IS SWEET, BUT ITS SECRET IS SWEAT” لیکن جہاں کامیابی کیلئے خون پسینے کی بجائے کمینے پن، خوشامد اور ڈھٹائی کلید ِ کامیابی بن جائے وہاں محنت کون کرے گا۔رہ گیا ’’میرٹ‘‘ تو یہ قوانین قدرت میں اتم ترین قانون ہے اور اس قانون کے ساتھ ٹمپرنگ کرنے والے کسی بھی معاشرہ کا انجام چھپا نہیں کہ پوری انسانی تاریخ اس کی گواہی میں پیش کی جاسکتی ہے۔ میرٹ کی موت درحقیقت معاشرہ کی موت ہے۔کاش ہماری نام نہاد سیاسی قیادتیں اوور ہیڈز، انڈر پاسز، اورنج ٹرینوں اور موٹر ویز کی بجائے ان باتوں پر توجہ دیں لیکن یہ ایسے ’’پراجیکٹس‘‘ ہیں جن میں کسی کمیشن یا کک بیک کا کوئی چانس نہیں۔
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)

اپنا تبصرہ بھیجیں