طالب علمی کے زمانے میں چند مہینے سائنس کالج ملتان کے ہاسٹل میں رہنے کا اتفاق ہوا، تو زندگی کو کچھ دوسرے پہلوؤں سے پرکھنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے کی زندگی والدین کے کنٹرول میں تھی، صبح گھر سے ناشتہ کرنا، فوجی ٹرک کا مقررہ وقت پر کالج چھوڑنا، بھاگم بھاگ لیکچرز سننا، زیادہ سے زیادہ کالج کینٹین میں دوستوں کے ساتھ چائے سنیکس کھانے، اور فوراً گھر واپسی کیلئے مقررہ جگہ پہنچ جانا کیونکہ کالجز شہر کے ایک طرف تھے جبکہ کینٹ ایریا دوسری طرف، اور ایک ہی فوجی ٹرک کینٹ کے تمام علاقوں سے طالب علموں کو کالجز چھوڑتا تھا اور مقررہ وقت پر واپس بھی لیتا تھا، یہاں ٹرک اسلئے لکھا ہے کیونکہ یہ آگے سے بند اور پیچھے سے کھلا تھا، اور اس میں بیٹھنے کیلئے دونوں طرف لکڑی کے پھٹے لگے ہوئے تھے۔
جب گریجوایشن کے فائنل امتحانات میں کچھ مہینے رہ گئے تو والد صاحب کی راولپنڈی ٹرانسفر ہوگئی اور یوں مجھے اکیلے کالج ہوسٹل میں چند مہینے رہنے کا موقعہ مل گیا۔ پچیس سال پہلے ہوسٹل میں گزارے گئے کچھ مہینوں میں دو کردار زندگی میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے، ان میں ایک ٹن شاہ، جو بدی کی انتہاؤں پر پہنچا ہوا بدکردار انسان تھا اور دوسرا فرشتہ صفت انسان عرفان بھائی، جسکی زبان پر ہمہ وقت اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ وسلم کا نام رہتا تھا۔
ٹُن شاہ کا نام تو کچھ اور تھا لیکن وہ چونکہ ہمیشہ ٹُن ہی نظر آتا تھا، اسلئے ہوسٹل میں اسکا نام ٹُن شاہ مشہور ہوگیا۔ پی ایس ایف کا صدر تھا اور غنڈہ گردی میں مشہور تھا، ہوسٹل کے دوسری طرف لوکل آبادی میں رہتا تھا، اور ہوسٹل میں مقیم طالبعلموں کو ڈرا دھمکا کر ان سے غنڈہ ٹیکس وصول کرتا تھا، جو نہ دے اسکی غیر موجودگی میں کھڑکی توڑ کر اسکے کمرے سے قیمتی چیزیں اٹھا لیتا تھا، اور طالبعلم یہ معلوم ہونے پر بھی کہ کس کی حرکت ہے، کچھ نہ کرسکتے تھے۔
کبھی کبھار ٹن شاہ اور اسکی ٹیم کسی ہائی یا مڈل سکول سے لڑکے بھی پکڑ لاتے تھے اور وارننگ دے کر ہوسٹل کا کوئی بھی کمرہ وقتی طور پر خالی کروا لیتے تھے، جہاں بدفعلی کی جاتی تھی اور ہوسٹل کے طالبعلم سب جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرلیتے تھے، یہاں تک کہ ہوسٹل وارڈن ان آرگینک کیمسٹری کا پروفیسر اور ہوسٹل کا عملہ سب ٹن شاہ سے کَنی کُتراتے تھے، اور کسی مصیبت میں پڑنے کو تیار نہیں تھے۔
کالج ہوسٹل سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی، جہاں ہوسٹل کےمکین اور اردگرد آبادی کے لوگ نماز پڑھنے آتے تھے۔ مسجد میں کچھ طلباء نے تبلیغی جماعت کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا، جسکے امیر(گروپ لیڈر) عرفان بھائی تھے۔ عرفان بھائی میرے والے ہوسٹل کی ہی بلڈنگ میں مقیم تھے۔ عرفان بھائی دبلے پتلے، کمزور سے جسم کے مالک تھے، چہرے پر کالی داڑھی اور سر پر ہمہ وقت ٹوپی پہنے رکھتے تھے۔
ہر روز عصر کی جماعت کے بعد عرفان بھائی فوراً کھڑے ہو کر تبلیغی گشت اور بیان کا اعلان کرتے اور باقی تبلیغی بھائی مسجد کے دروازے میں کھڑے ہوجاتے، تاکہ باہر جاتے لوگوں کو گھیر کر مسجد واپس لا سکیں۔ نمازیوں میں ہمارا گروپ ہمیشہ اس کوشش میں ہوتا تھا کہ ادھر مولوی صاحب دعا ختم کریں اور ادھر ہم فوراً باہر بھاگ جائیں، باہر نکل جانے والے لوگ خوش ہوتے تھے کہ شکر ہے تبلیغی بھائیوں سے بچ گئے جبکہ اندر رہ جانے والے دوستوں کے بارے میں ایک دوسرے سے اظہار ہمدردی کرتے نظر آتے کہ وہ بچارے اندر پھنس گئے ہیں۔
ہوسٹل کے اندر عرفان بھائی اکثر اوقات تولیہ کندھے پر رکھے باتھ رومز کی طرف جاتے دیکھے جاتے تھے، شاید پانچ وقت کی نمازیں نہا کر پڑھتے تھے یا تولیے کے ساتھ وضو تازہ کرنے جاتے تھے، سچائی جو بھی ہو ہوسٹل میں انکا نام مولانا جریان پڑ گیا تھا، ہر کوئی ان سے جان چھڑا رہا ہوتا تھا، انکا مذاق اڑایا جاتا تھا، لیکن عرفان بھائی ہر کسی کو ہر وقت دین کی تبلیغ کرتے نظر آتے تھے، انہوں نے کبھی بھی لوگوں کی تلخ باتوں کا بُرا نہیں منایا تھا۔
عرفان بھائی اور ٹُن شاہ کی طرح کے کردار ہماری زندگیوں میں، ہمارے اردگرد وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ بُرے کردار واے انسان کو وقتی خوشی کے علاوہ زندگی میں کبھی سکون میسر نہیں آتا جبکہ اچھے کردار والے کو وقتی پریشانی ہوسکتی ہے لیکن وہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔
آئیں عرفان بھائی والے کردار کو اپنائیں اور معاشرے میں محبت پھیلائیں، ٹن شاہ کے کردار کے حامل لوگوں سے بچیں، یہ ہمارے معاشرے کا بدصورت چہرہ ہیں اور ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، صرف اسی صورت میں ہم ایک زندہ قوم بن سکتے ہیں۔