301

بینکاری نظام یا استحصالی نظام؟ (پہلا حصہ)

بیگم کو انکی والدہ کی وفات کے بعد انکے حصے سے بارہ لاکھ روپے ملے تو بیگم اور بچوں نے اپنی الگ نئی گاڑی خریدنے کا پروگرام بنا لیا۔ شروع میں پروگرام تھا کہ یہ لوگ بینک لیز سے اپنی پسند کی نئی ہنڈا سٹی خرید لیں گے، مگر بچوں کو خیال ہوا کہ ماہوار قسط کی وجہ سے انکی ہوٹلنگ اور دیگر عیاشیاں ختم ہو جائیں گی۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ بینک لیز کی بجائے سیمی نیو گاڑی خریدی جائے۔ بچوں کو تب تک نہ مارکیٹ کا اندازہ تھا نہ انھوں نے او ایل ایکس پر کچھ خاص سروے کیا تھا۔ خیر بڑے بیٹے نے جب اول ایل ایکس اور مختلف آن لائن گاڑیوں کی سیل پرچیز کے فورمز کو وزٹ کیا تو پتہ چلا کہ اتنے پیسوں میں دو ہزار سولہ پندرہ یا چودہ ماڈل گاڑی بھی نہیں ملے گی۔

بچوں نے بیگم کو ڈپریس کیا اور ہم نے مزید تین لاکھ کی ایڈوانس کمیٹی اٹھا لی۔ اب جب یہ پیسے بھی ساتھ ملے تو ہنڈا پاکستان کی آن لائن ویب سائٹس پر برینڈ نیو سادہ ہنڈا سٹی کی قیمت پندرہ لاکھ سینتیس ہزار دیکھ کر خیال ہوا کہ تھوڑے سے پیسوں کا فرق ہے کیوں نہ جا کر اپنے نام کی زیرو میٹر ہی خرید لی جائے۔ سو اگلے دن تیار ہو کر لہور میں ہنڈا کے سب سے بڑے شو روم پر جو کہ ملتان روڈ پر واقع ہے پہنچ گئے۔ یہ کافی بڑا شو روم ہے اور جن دنوں ہم گئے ان دنوں وہاں نئی ہنڈا کی لانچنگ ہو رہی تھی۔ شو روم پر بانو بازار سی بھیڑ دیکھ کر میڈیا سے بھی لمحے بھر کو نفرت ہوئی کہ جو ہروقت ملک میں غربت کا رونا روتا رہتا ہے۔ پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ نہیں بڑھی ہوئی تقسیمِ دولت کیساتھ آبادی بھی تو بڑھی ہے۔ جو کبھی پاکستان کے بائیس خاندانوں کی بات ہوتی تھی کہ پاکستان کا تمام سرمایہ ان کے پاس ہے تو وہ فگر بھی آج گیارہ سو خاندانوں تک پہنچ چکی ہے۔

بہر حال شو روم کے مختلف حصوں میں کرسیاں رکھ کر انفارمیشن دینے والے افسران کو دیکھا تو تقریباً سبھی مصروف تھے اور ایک دو یا کہیں تین فیملیز انتظار میں تھیں کہ کوئی فارغ ہو تو وہ بیٹھ کر بالمشافہ معلومات لے سکیں۔ خیر تھوڑے انتظار کے بعد جب ایک خاتوں کا ٹیبل خالی دیکھا تو اسکے پاس بیٹھ گئے۔ خاتون نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بلکل سادہ گاڑی پندرہ لاکھ سینتیس ہزار کی ہے، پچپن ہزار کا نیوی گیشن سسٹم ہے، اسی طرح اگر آپ پچاس فیصد ایڈوانس پیمنٹ کیساتھ بکنگ کے بعد چھ ماہ انتظار نہیں کر سکتے اور گاڑی فوری چاہیے تو اسکے لیے اون منی کے طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار الگ ہیں اور رجسٹریشن کے پیسے شامل کر کے یہ آپکو کوئی ساڑھے سترہ اٹھارہ لاکھ کی پڑے گی۔ اون منی کو ایک عرصہ ہوا ریاست غیر قانونی قرار دے چکی ہے مگر یہ ختم کہاں کب ہوئی یہ کسی کو نہیں پتہ۔ استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی کے مطابق یہ وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جو انوسٹر حضرات اپنے نام پر بک کروا کر شور روم پر کھڑی کر دیتے ہیں۔ مطلب غیر قانونی دہندے کے انوسٹر جو اپنی گاڑیاں ہنڈا کے مستند اور رجسٹرڈ شو رومز پر بیچتے ہیں۔

کون پوچھے گا اس ملک کے ناپاک، غلیظ اور گھٹیا سرمایہ دار کو؟ جو کسٹمر کو دھوکہ دینے کے لیے اپنی ویب سائٹس پر محض بنیادی قیمت ہی بڑے سائز میں لکھتے ہیں۔ پاکستانی بزنس مین کی یہ نیچ ذہنیت صرف یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی، یہ آپ کو بڑے بڑے برانڈز کی پچھتر فیصد سیل کے بل بورڈز کے ساتھ بڑا سا 75% اور ساتھ میں نظر نہ آنے والے چھوٹے سے up to لکھے میں بھی نظر آتی ہے۔ شاید جدید مارکیٹنگ ٹیکنیکس میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں پڑھایا جا رہا۔ مطلب وہ تعلیم کیا کردار سازی کرے گی جسکی اپنی کوئی اخلاقیات نہیں ہیں؟ خیر آگے چلتے ہیں۔ شو روم سے گاڑی کی اصل قیمت کا علم ہونے کے بعد گھر لوٹے تو بچوں نے وہی بات دہرائی کہ گاڑی بینک لیز پر نہیں لینی، آپ دو ہزار پندرہ یا سولہ ماڈل دیکھیں۔ اب ذہن میں تھا کہ نئی گاڑی پندرہ لاکھ پینتیس ہزار کی ہے تو سال دو سال پرانا ماڈل تو ضرور پندرہ لاکھ تک مل جائے گا۔

مگر یہ بھی غلط فہمی ثابت ہوئی جو کوئی بھی گاڑی بیچ رہا ہے وہ اون منی، رجسٹریشن اور دیگر ایسیسریز کے پیسے شامل کر کے بیچ رہا ہے۔ چنانچہ پندرہ میں دو ہزار سولہ گاڑی تو کیا ملنی تھی کوئی صاف شفاف اوریجنل حالت کی پندرہ ماڈل بھی میسر نہ تھی۔ اس میں بھی پندرہ ساٹھ تک وہ پندرہ ماڈل گاڑیاں تھیں جو بونٹ ڈگی یا دروازوں سے پینٹ ہوئی تھیں یا پھر ڈینٹ واضع طور نظر آ رہے تھے۔ مطلب دو سال پرانے ماڈل کی اچھی صاف گاڑی پندرہ اسی سے کم نہ تھی مگر ذہن اٹکا تھا بد دیانت سرمایہ دار کے اشتہار میں جس پر دو ہزار سترہ ماڈل کی کل قیمت پندرہ لاکھ سینتیس ہزار لکھی تھی۔ کوئی ہفتہ ڈیڑھ خود خوار ہونے اور ایک بار ڈینٹر کو صرف گاڑی سے نقص نکلوانے کے پندرہ سو دینے کے بعد ایک بار پھر دوستوں کے اس مشورے پر کہ جب اتنے پیسے ہی خرچ کرنے ہیں تو جو تھوڑے بہت پیسے کم ہیں انکی لیز کروا کر سیکنڈ ہینڈ کے عزاب سے نکل آیا جائے کہ، ہمیں کیا پتہ پرانی گاڑی میں کیا کیا نقائص ہیں، ابھی تو گاڑی صرف ڈینٹرکو دکھائی تھی مکینیکل رپورٹ کے لیے مکینیک الگ سے پیسے لیتا اور یہ بھی پتہ نہ ہوتا کہ مائلیج کا میٹر آگے پیچھے تو نہیں ہوا، گاڑی ٹیکسی کے طور پر تو نہیں استعمال ہوئی، کاغزات درست ہیں، گاڑی چوری کی تو نہیں؟

بہر حال ناتجربہ کاری اور مزکورہ خدشات کے پیش نظر دوبارہ لیز کا فیصلہ کیا کہ چلو ہم پندرہ لاکھ دے کر باقی رقم لیز کروا لیتے ہیں۔ بینک میں پہنچ کر پہلی بار جب کار لیزنگ والے افسر سے رجوع کیا اور اپنا مدعا بیان کیا تو بولا آپ پندرہ لاکھ نہیں جمع کروا سکتے، اور بینک پالیسی کے تحت ڈاون پیمنٹ کے طور پر آپ زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد جمع کروا سکتے ہیں۔ سرسری سا پوچھ کر واپس آ گیا مگر چند دن بعد کچھ سوچ کر سیدھا بینک مینیجر کیپاس گیا اور شکوہ کیا کہ یہ کونسا انصاف اور کہاں کا دستور ہے کہ کسٹمر خرچ ہونے کے ڈر سے آپکو پندرہ لاکھ دینا چاہتا ہے مگر آپ پچاس فیصد سے اوپر نہیں لے سکتے؟ مینیجر میرا جارحانہ انداز دیکھ کر تھوڑا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور فوراً کہیں فون کر کے معلومات لیں کہ زیادہ سے زیادہ ڈاون پیمنٹ کتنی وصول کی جا سکتی ہے؟ معلوم ہوا کہ پالیسی کیمطابق اسی فیصد تک ڈاون پیمنٹ وصول کر سکتا ہے۔ کار لیزنگ والے بینک ملازم کو کسٹمر سے جھوٹ بولنے اور گمراہ کرنے پر کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ شاید اسکی ڈیوٹی ہی جھوٹ بولنا ہے۔ یو بی ایل کے بینک مینیجر نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی پالیسی تو اسی فیصد کی ہے مگر ہم آپکو زیادہ سے زیادہ ستر فیصد ڈاون پیمنٹ لیں گے۔ اسکا بینک مینیجر کی بدمعاشی کے سوا کوئی قانونی جواز سمجھ نہیں آتا۔ (جاری ہے)
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں اور مکالمہ ڈاٹ کام میں لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں