(اردونامہ سٹاک ہوم) سویڈن نے منگل کے روز کریسٹین جیک ٹوریٹی (Christine Toretti) کو امریکہ کی نئی سفیر کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کے مطابق، سوئیڈش بادشاہ کارل شانزدہم گستاف نے اسٹاک ہوم کے شاہی محل میں ان کی اسنادِ سفارت وصول کیں، جس کے بعد وہ باقاعدہ طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہل ہو گئیں۔ کریسٹین ٹوریٹی ایک ریپبلکن کاروباری خاتون اور سیاسی فنڈ ریزر ہیں۔ انہیں 2019 میں اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مالٹا کے لیے سفیر نامزد کیا تھا، مگر امریکی سینیٹ نے ان کی نامزدگی کی توثیق نہیں کی تھی۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اُس وقت ٹوریٹی پر ایک عدالتی حکم (Restraining Order) جاری کیا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے سابق شوہر کے معالج کو مبینہ طور پر دھمکیاں دی تھیں۔ اسی پس منظر میں ان کی سفارتی نامزدگی روک دی گئی تھی۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، انہوں نے ٹوریٹی کو سوئیڈن کے لیے سفیر کے طور پر نامزد کیا۔ کچھ امریکی قانون سازوں اور انسانی حقوق کے حلقوں نے اس نامزدگی پر اعتراض کیا، مگر بالآخر سینیٹ نے انہیں منظور کر لیا۔ سوئیڈش وزارتِ خارجہ نے باضابطہ بیان میں کہا کہ سفیر کی منظوری بین الاقوامی روایات کے مطابق دی گئی ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو “مزید مضبوط بنانے” کی خواہش رکھتی ہے۔ سوئیڈن کے چند سیاسی مبصرین نے البتہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس تقرری سے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں سیاسی رنگ غالب آ سکتا ہے۔
امریکہ اور سوئیڈن کے تعلقات گزشتہ چند برسوں میں خاصے اہم ہو چکے ہیں — خاص طور پر نیٹو میں سوئیڈن کی شمولیت کے بعد دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ روس–یوکرین جنگ کے پس منظر میں امریکہ، اسکینڈے نیویا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ اقتصادی تعلقات، ٹیکنالوجی، اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بھی جاری ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ ٹوریٹی کی ماضی کی شہرت متنازع ہے، لیکن وہ کاروباری اور سیاسی تجربہ رکھتی ہیں جو انہیں واشنگٹن کی پالیسیوں کی مؤثر ترجمان بنا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس تقرری پر ملے جلے انداز میں عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ صارفین نے کہا کہ “ایک متنازع ماضی رکھنے والی شخصیت کو حساس عہدے پر تعینات کرنا درست نہیں”۔ جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ “ہر شخص کو دوسرا موقع ملنا چاہیے، اور اہم یہ ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے اعتماد بحال کریں”۔ کریسٹین ٹوریٹی اب باضابطہ طور پر اسٹاک ہوم میں امریکی سفارت خانے کی سربراہی کریں گی۔
یہ تقرری نہ صرف امریکہ-سوئیڈن تعلقات کے ایک نئے باب کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی پالیسیوں اور پرانے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نئی سمت دینے کے لیے تیار ہے۔