342

یورپین ائیر سیفٹی فیصلہ اور ہماری اخلاقی گراوٹ

ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس کے مطابق 14 اگست 1947 سے 22 مئی 2020 تک پاکستان کی فضائی حدود میں 83 فضائی حادثات پیش آ چکے ہیں۔ جمعے کو ہونے والے حادثے سے قبل بقیہ واقعات میں اب تک 1002 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ #ایئرکرافٹ کریشزریکارڈآفس کے مطابق پاکستان کی سرکاری ایئر لائن کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، جسے پہلے پاکستان ایئرویز کے نام سے جانا جاتا تھا، کو پہلا حادثہ 26 نومبر 1948 کو پیش آیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا مسافر طیارہ پنجاب کے شہر وہاڑی کے قریب گِر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس حادثے میں مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (بی بی سی)۔

یہ تو ہے ہماری ائیرلائن کی مجموعی حالت کسی وقت پاکستانی ائیرلائن دنیا کی صف اول ائیرلائنوں میں شمارہوتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کبھی آمریت جمہوریت میں ادارے تباہ ہوئے تو کبھی مورثی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے ادارے تباہ کردئے گئے. اب تک جتنے حادثات ہوئیں ہے اس میں واحد موجودہ حکومت نے حادثے کی رپوٹ پبلک کرنے کی ہمت کی لیکن وہ بھی الٹا نقصان میں آگیا. لیکن اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ پچھلی حکومتیں کیوں رپوٹس شائع نہیں کرتی؟ کیونکہ ادارے کی تباہی میں وہ برابر کے شریک تھے جس میں سیاسی بھرتیاں کرپشن اور من پسند افراد کی تعیناتی تھی اعلی عہدے ماہرین کو دینے کی بجائے سیاسی کارکنوں کی دی گئی یہاں تک انکشاف ہوا کہ کہ سینکڑوں پائلٹس کی لائسنس جعلی ہے اور بہت سارے پائلٹس کی ڈگریاں ہی جعلی نکلی. اب سوچیئے ائیرلائن جیسے ادارے میں جعلی ڈگری والے لوگ کیا ایسا کسی ملک میں ممکن میں ہے؟

دنیا بھر میں انسانی حقوق کو اہمیت دی جاتی ہے اور بے گناہ ایک انسان کی موت پر پوری حکومت حرکت میں آتی ہے لیکن ہمارے ملک میں جو سب سے سستی چیز ہے وہ موت ہے وہ چاہے ہسپٹال میں ڈاکٹر کی غفلت یا سہولیات نہ ہونے سے ہو چاہے کسی دشمنی میں دن ڈیہاڑے قتل ہوجائے چاہے کسی بم دھماکے میں یا کسی ائیر لائن حادثے میں تو شہریوں کی بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں ہیں. جعلی لائسنس اور جعلی ڈگریوں کے انکشاف پر یورپین ائیر سیفٹی نے پی آئی اے پر 6 ماہ کی یورپ پرواز پر پابندی عائد کی یہی تو عمل ہے زمہ دارانہ ممالک کا جہاں ادارے سیاسی اثر و اثوخ سے آذاد ہے وہ ملک اور اپنے قوم کے بہترین مفاد میں کام کرتے ہیں. حیرت اس بات کا ہوئی کہ بہت سارے سیاسی لوگ دانشورو صحافیوں سے کہ وہ کہ رہے کیا ہوا جعلی ڈگری تھی تو صرف 28 جعلی ڈگریاں تھی سوچئے ان لوگوں کی سوچ کی لیول کیسی ہے؟ تو کیا اب تک حادثے ہوئے ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئی اس میں بھی بس یہی کہا جائے کہ کیا ہوا کچھ ہی لوگ تو مر گئیں؟

پی آئی اے کی یورپ پرواز بندش ہر جتنے صحافی دانشور تنقید کر رہے سب صرف اور صرف سیاسی لوگوں کی وجہ کرتے یہ لوگ سیاسی جماعتوں اور سیاسی لوگوں کے صحافی اور دانشور کی روپ میں ایجنٹ ہے. کسی وقت تو کسی نے ادارے کو ٹھیک کرنا ہوتا جس کے لئے نقصان ہی اٹھانا کیوں پڑے اب کرونا کی وجہ سے ایسے بھی دنیا بھر کی ائیرلائنز بحران کا شکار ہے اور پرواز کی بندشوں کا سامنا ہے اور پی آئی اے پہلے پی خسارے کا شکار ہے حکومت کا موقع مل گیا وہ اس 6 مہینے  کی مدت میں ادارے میں آپریشن کلین اپ کریں زمہ داروں کو سخت سزائیں دیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک مرتبہ پھر ائیر لائن کا کھویا ہوا مقام حاصل کریں. ہم کب تک اپنی غلطیاں چھپا کر حادثوں کا شکار بنے اور کب تک ایسے کالی بھیڑیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوجائے کسی دن تو کسی مے ٹھیک کرنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں