Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
66

لندن سے سٹاک ہوم تک

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے جب سکینڈے نیویا ایئر لائن کے جہاز نے اڑان بھری تو پورے شہر کا منظر دکھائی دینے لگا۔ میں نے اسی لئے ونڈو سیٹ کا انتخاب کیا تھا کہ دِن کے وقت برطانوی دارالحکومت کا فضائی نظارہ کر سکوں۔ موسم بہت اچھا اور مطلع بالکل صاف تھا۔ اسلئے بلندی سے لندن شہر کو دیکھنا بہت اچھا لگا۔ درختوں کے ذخیرے، جھیلیں او رپارک اونچائی سے اور زیادہ بھلے لگنے لگے۔ لندن شہر کی ایک ”خرابی“ یہ ہے کہ یہ اپنے مکینوں کو کسی اور دیار میں نقل مکانی کی ”اجازت“ نہیں دیتا۔ یہ شہر مہنگا اور پرہجوم ہونے کے باوجود ہر ایک کو اپنی رونقوں اور گہما گہمی کا اسیر بنائے رکھتا ہے۔ میں جب بھی ہیتھرو ایئرپورٹ سے کسی دوسرے ملک جانے کے لئے جہاز میں بیٹھتا ہوں تو مجھے وہ لمحات ضرور یاد آتے ہیں جب میں پہلی بار اس ہوائی اڈے پر اترا تھا تو یہاں کی ہر چیز میرے لئے اجنبی تھی۔ بہرحال اس بار میری پرواز کی اگلی منزل سٹاک ہوم تھی۔ میں نے ساتویں یا آٹھویں بار سویڈن کے لئے رختِ سفر باندھا تھا۔ مجھے دو بار ڈنمارک سے سڑک کے ذریعے بھی سویڈن جانے کا موقع ملا، دس گھنٹے کے اس سفر کی یادیں آج بھی مجھے سرشار کر دیتی ہیں، اگر کسی کو صاف ستھرے ساحلوں، ہر ے بھرے جنگلوں، جھیلوں، سمندر اور پربتوں کی شکل میں قدرت کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونا ہو تو اُسے کوپن ہیگن سے سٹاک ہوم تک ”بائی روڈ“ سفر ضرورکرنا چاہئے۔ میں اس بار بھی ایشین اردو سوسائٹی کی دعوت پر سویڈن پہنچا۔ جمیل احسن اس سوسائٹی کے بانی اور روح رواں ہیں جو بہت عمدہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک شاندار منتظم اور پرخلوص انسان ہیں۔انہوں نے تیس پینتیس برسوں سے سٹاک ہوم میں اردو زبان و ادب کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ وہ 5شعری مجموعوں کے مصنف ہیں اور انہوں نے اس اجنبی دیار میں منزل کے نام سے اردو/سویڈش رسالے کا اجرا کیا۔ اردو زبان اور شاعری میں دلچسپی رکھنے والے تارکین وطن کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں اُن کی کوششوں اور خلوص کی جتنی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔ احمد فراز اور امجد اسلام امجد سے لے کر یورپ میں آباد اردو کے ہر نامور ادیب اور شاعر کی سٹاک ہوم میں پذیرائی کا اعزاز جمیل احسن کی تنظیم ایشین اردو سوسائٹی کو حاصل ہے۔ میں نے پہلے بھی اس حقیقت کی نشاندہی اور اعتراف کیا تھا کہ جو لوگ لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں کے علاوہ جرمنی، فرانس، ہالینڈ بیلجیئم، ڈنمارک، ناروے اور سویڈن جیسے ملکوں میں ادبی تنظمیں قائم کر کے اردو کے شاعروں ادیبوں کی میزبانی اور پذیرائی کرتے ہیں اور شعروادب میں دلچسپی رکھنے و الے تارکین وطن کو نامور اہل قلم سے ملاقاتوں کا موقع فراہم کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ ہم سب اوورسیز پاکستانیوں کو بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کیونکہ اِن لوگوں کی وجہ سے ہی دیار غیر اردو زبان و ادب کی شمع روشن ہے۔ سویڈن، سکینڈے نیویا کا ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور قدرتی حسن سے مالامال ملک ہے جس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ اور رقبہ ایک لاکھ 73ہزار آٹھ سو ساٹھ مربع میل ہے۔ سویڈن میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد تقریباً 27ہزار ہے جن کی اکثریت سٹاک ہوم میں آباد ہے۔ سویڈن اپنے جنگلات اور جھیلوں کی وجہ سے بڑی انفرادیت کا حامل خطہ ہے جس کے کل رقبے کا نصف حصہ سرسبز جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ پورے ملک میں بڑی چھوٹی ہزاروں جھیلیں اس کی رعنائی اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں۔ میں جب بھی سٹاک ہوم جاتا ہوں محمود مرزا صاحب مجھے اس شہر کے مضافات میں جھیلوں اور جنگلوں کی سیاحت کے لئے ضرور لے جاتے ہیں۔ میں نیلے اور سرمئی پانیوں کی شفاف جھیلوں اور آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے چیڑ کے درختوں اور گھنے جنگلات کو دیکھ کر اپنے رب کا شکرادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اِن جنت نظیر منظروں سے اپنی آنکھوں کو سیراب کرنے کا موقع فراہم کیا۔ قدرت کی اِن رعنائیوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ دنیا واقعی خوبصورت ہے، محمود مرزا بہت شاندار فوٹو گرافر بھی ہیں۔ آوڈی کار کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ آج کل فوٹو گرافی اور سیروسیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ بہت پرخلوص اور منظم انسان ہیں۔ سویڈن میں مجھے اُن کی رفاقت بہت سرشار رکھتی ہے۔ اس بار بھی جب میں سٹاک ہوم پہنچا تو موسم بہت خوشگوار تھا۔ ایشین اردو سوسائٹی کا مشاعرہ بھی بہت اچھا رہا۔ جس میں ڈنمارک سے کامران اقبال اعظم کی شرکت نے اس کے لطف کو بڑھا دیا۔ کامران اعظم کی شاعری اور جمیل احسن کی بے ساختہ میزبانی نے مشاعرے کو چار چاند لگا دیئے۔ اس مشاعرے میں زاہد حسین زاہد،، شکیل خان شکو، افتخار ثاقب، شہناز انجم نے اپنا کلام سنا۔ سویڈن کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہاں اردو کے بیشتر شعراء کے مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں۔ اِن میں جمیل احسن کے علاوہ ابرار مرزا، شہناز انجم،محمد سہیل صفدر، افتخار ثاقب، شکیل احمد شکو بھی شامل ہیں۔ جمیل احسن بہت سینئر شاعر ہیں اور ایک طویل مدت سے یہاں اردو کے علمبردار ہیں۔ اُن کی ایک اور خوبی یہ بی ہے کہ وہ ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انہیں ایشین اردو سوسائٹی کے مشاعروں میں مدعو کرنے کے علاوہ ان کی شعری تربیت کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جمیل احسن کا نیا شعری مجموعہ آسودگی کے نام سے شائع ہوا جس کی یورپ، امریکہ اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔ اُن کا ایک شعر اوورسیز پاکستانیوں کے دِل کی آواز بن چکا ہے اور تارکین وطن میں زبان زدِ عام ہے۔

؎ ہوا کے ہاتھ پرندوں کے پر نہیں آتے

نگل گئے جو وطن سے وہ گھر نہیں آتے

جمیل احسن کا صرف یہ شعر ہی نہیں بلکہ اُن کی تمام شاعری اسی طرح کے عمدہ اشعار سے مزین ہے۔

وہی گلی تھی وہی گھر وہی دریچہ تھا

وطن کو لوٹنے والا بہت ہی رویا تھا

کدھر گئے سبھی رستے میں چھوڑ کر مجھ کو

میں سب کے ساتھ تو دریا کے پار اترا تھا

دیار غیر میں اس کے بھی بال کالے تھے

وہ شخص میری طرح شہر میں اکیلا تھا

………

میں خوشی بن کے چھلک جاؤں تری آنکھوں سے

تیرے رخسار پر بہنا مری تقدیر میں ہو

زخم کیا سب کو دکھانے کے لئے ہوتے ہیں 

یہ خزانے تو چھپانے کے لئے ہوتے ہیں 

 میرا چہرہ تو مری جان تری جانب ہے

باقی چہرے تو زمانے کے لئے ہوتے ہیں 

 میں جب سٹاک ہوم میں تین دِن گزار کر لندن پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ ایس اے ایس کے طیارے میں لینڈنگ سے پہلے ہیتھرو پہنچنے کا اعلان کیا تو نیچے پورا شہر برقی قمقموں سے روشن دکھائی دیا۔ ایسا لگا کہ ستارے زمین پر اتر کر اپنی جگمگاہٹ سے مسافروں کا خیر مقدم کر رہے ہوں۔

٭٭٭٭٭