جو افراد اور اقوام یہ سمجھتے ہیں کہ اگرانہوں نے کتابیں پڑھنا، غور و فکراور تحقیق کرنا اور جدید علوم کے حصول کی جستجو چھوڑ دی ہے تو شاید پوری دنیا میں یہی رجحان فروغ پا رہا ہے۔ ایساہرگز نہیں ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی حد تک تو میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ملک میں مطالعے اور تحقیق کارجحان ختم نہیں ہوا۔ برطانیہ میں یونیورسٹیز اور لائبریریز کی تعداد اور معیار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں علم کے حصول کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کی ضرورت اور افادیت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں میں ایک کام کے سلسلے میں لندن کی برٹش لائبریری گیا، ایک طویل عرصے کے بعد اس کتب خانے اور عجائب گھر (میوزیم) میں جاکر نہ صرف طبیعت سرشار ہوگئی بلکہ یہ دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی کہ اس بے مثال لائبریری میں آنے والوں کے لئے مزید سہولتوں اور آسانیوں کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ کنگز کر اس لندن کے مصروف ترین علاقوں میں سے ایک ہے یہاں ایک بہت بڑا اور قدیم ریلوے سٹیشن ہے جہاں سے مختلف شہروں اور علاقوں کے لئے ریل گاڑیوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ اس سٹیشن سے باہر نکل کر دائیں طرف یوسٹن روڈپر جائیں تو چند منٹ کے فاصلے پر برٹش لائبریری کی عمارت موجود ہے جبکہ اس کے اوپر ایک سرخ رنگ کی شاندار بلڈنگ دکھائی دیتی ہے جو کہ سینٹ پنکراز (St. Pancreas) سٹیشن اور ہوٹل ہے۔یہ عمارت اپنی خوشنمائی کی وجہ سے ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کنگز کر اس میں برٹش لائبریری کے علاوہ لندن کا کینال میوزیم بھی سیاحوں اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے۔ میں جس ویک اینڈ پر برٹش لا ئبریری گیا اس روز وہاں خزانہ (TREASURE) کے نام سے ایک نمائش بھی جاری تھی۔ اس نمائش میں کا غذ کی ایجاد، پر نٹنگ کے آغاز اور عالمی ادب کے نایاب مخطوطات کے بارے میں معلومات اور نسخہ جات کو یکجا کیا گیا تھا۔ ولیم شیکسپئر کے ڈراموں کے ہاتھ سے لکھے گئے ابتدائی ایڈیشنز کے علاوہ حافظ شیرازی کے دیوان کے قلمی نسخے،گلوکاروں کے گروپ بیٹلز کے گائے جانے والے نغموں کے صفحات اور اس میں کی جانے والی تبدیلیوں کے شواہد، بر صغیر میں اردو کتابت کے قواعد و ضوابط پر لکھی جانے والی کتاب، 105 عیسوی میں چین میں بنایا جانے والا کا غذ اور لکڑی کی تختیوں پرحروف کندہ کر کے ترتیب دی جانے والی ابتدائی کتاب اور کئی صدیاں پرانی نایاب دستاویزات نے مجھے حیران کر دیا۔ یہاں ایک ایسا اسٹامپ پیپر بھی اپنی اصلی حالت میں رکھا گیا تھا جو ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں خصوصی طور پر چھاپا گیا تھا اس پر اردو میں ایک آنہ مالیت بھی درج کی گئی تھی۔ اس نمائش میں دنیا بھرکی ایسی درجنوں دستاویزات اور نایاب قلمی نسخے موجود تھے جنہیں کروڑوں پاؤنڈز کی رقم سے خرید کربرٹش لائبریری کااثاثہ بنایا گیا تھا۔
برٹش لائبریری ہر روز علم کے پیاسوں، تحقیق اور جستجو کے ضرورت مندوں، تاریخ کے قدر دانوں، ادیبوں، محققین، دانشوروں اورطالب علموں سے بھری رہتی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ تحقیقی حوالوں کے لئے برٹش لائبریری کی آن لائن سروس سے رجوع کرتے ہیں۔ اکتوبر 2023میں نا معلوم ہیکرز نے برٹش لائبر یری کی آن لائن ڈیجیٹل سروس اورسسٹم پر سائبراٹیک کرکے انتظامیہ سے لاکھوں پاؤنڈز کا تاوان طلب کیا تھا، عدم ادائیگی پر اس علمی ادارے کا پورا کمپیوٹر نیٹ ورک مفلوج کر دیا گیا۔رسیدارین سم ویئر گروپ(RHYSIDARAN SOMEWARE GROUP) نے لائبریری کا نایاب اور قیمتی ڈیٹا ہی چوری نہیں کیا بلکہ ملازمین اور ممبرز کی ذاتی معلومات کی تفصیلات بھی چرا لیں۔ برٹش لائبریری برطانیہ کا ایک قومی اثاثہ ہے جس کو ڈیپارٹمنٹ آف کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹس کی معاونت حامل ہے۔ یہ اس اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی لائبریری شمار کی جاتی ہے کہ یہاں تقریبا 2 ملین کتب، مخطوطات، اخبارات، رسالے، مسودے،دستاویزات، ڈاک ٹکٹیں،کرنسی نوٹ اور دیگر نوادرات محفوظ ہیں۔ میں اس کتب خانے کے آرکائیو میں ریاست بہاول پور کے دور کی وہ تین رسیدی ٹکٹیں دیکھ کر حیران رہ گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت کے لئے دستاویزات (اسٹامپ پیپر) پر لگائی جاتی تھیں۔برٹش لائبریری میں ہروہ قابل ذکر کتاب موجود ہے جو یو نائیٹڈکنگڈم اور آئر لینڈ میں شائع ہوئی۔ اس لائبریری کا قیام یکم جولائی 1973 میں عمل میں آیا لیکن یہاں ہزاروں سال قدیم نوادارت کا خزانہ موجود ہے۔ برٹش لا ئبریری کی ایک برانچ لیڈزویسٹ یارکشائرمیں بھی ہے۔ ویسے تو پورے یو کے میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ پبلک لائبریریز موجود ہیں (سکولوں، کالجوں اوریو نیورسٹیز کے کتب خانے اس کے علاوہ ہیں)۔ ا ن تمام کتب خانوں میں برٹش لائبریری سب سے منفرد، مفید اور بے مثال ہے۔اس علمی خزانے تک پہنچنے والوں کو اُن کی ضرورت کے مطابق دستاویزات، نوادرات اور کتب تک رسائی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ برٹش لائبریری کی آن لائن سروس کے ذریعے بھی لاکھوں لوگ گھر بیٹھے اس کتب خانے میں دستیاب علمی اورتحقیقی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔برٹش لائبریری میں سال بھر مختلف طرح کی نمائشوں کانفرنسز، تربیتی ورکشاپس اور سیمینار زکا انتظام کیا جاتا ہے۔ آج کل یہاں دو نمائشیں جاری ہیں ایک نمائش ان ارتھڈ(UNEARTHED)دی پاور آف گارڈننگ کے نام سے لگی ہوئی ہے جو 18 اگست تک جاری رہے گی اس نمائش میں گھروں اور محلات میں صدیوں سے بنائے جانے والے گارڈنز (باغیچوں) کی تاریخ، ضرورت، افادیت اور سائنسی توجیحات کا انتہائی شاندار طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے۔ دوسری نمائش سٹوری ایکس پلوررز (STORY ECPLORERS) اے جرنی تھرو امیجنری ور لڈز کے نام سے لگی ہوئی ہے جو18 جنوری 2026 تک جاری رہے گی۔برٹش لائبریری کے ممبران کی تعدادساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ اس کتب خانے کا عملہ تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل ہے جو اس لائبریری کے انتظام اور روزانہ کی ممبرز سروس کو خوش اسلوبی سے چلاتا ہے۔برٹش لائبریری ہو یا برطانیہ کا کوئی ڈیپارٹمینٹل سٹور اس ملک میں ممبرز یا کسٹمر سروس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ اس سروس کی وجہ سے اداروں کی ساکھ بنتی یا بگڑتی ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت حیرانی ہوئی کہ پاکستان جس کی آبادی تقریبا 24 کروڑ افراد پرمشتمل ہے یہاں پبلک لائبریریز کی تعدادصرف302ہے اور ان کتب خانوں میں بھی لوگ جانے اور ان کی ممبرشپ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بڑے بڑے مزاروں، درگاہوں، درباروں اورخانقا ہوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جہاں ہر وقت عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جن میں اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جومنتیں ماننے اور چڑھا وے چڑھانے کے لئے وہاں جاتے ہیں یہ زائرین ان مزاروں اور درباروں کے گدی نشینوں، مجاوروں اور سجادہ نشینوں سے اندھی عقیدت رکھتے اور اُن کی خدمت گزاری کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے چھوٹے مزار، درگا ہیں اور پیر اس کے علاوہ ہیں جو ہر قصبے اور تحصیل میں پائے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کسی ملک میں موجود لائبریریز کی تعداد کا موازنہ، وہاں پر قائم درباروں، مزاروں اور درگاہوں کی تعداد سے کرنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن اس مواز نے سے کسی بھی ملک کے عوام کے رجحانات کے اور ترجیحات کا ضرور اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟