معاشرے میں ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو انسان کو جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں جن پر باقاعدہ ماتم کرنے کو جی کرتا ہے اور رتی برابر بھی احساس رکھنے والا انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ آخر ہو کیا رہا ہے ہم بطور معاشرہ کس طرف کو جا رہے ہیں اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم انسانوں کے معاشرے میں جی رہے ہیں معاشرے میں ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ذرا سا ذی شعور بھی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا یہ معاشرہ انسان نما درندوں بےحس اور جنگلی جانوروں کا روپ دھار چکا ہے کیا راہ راست پر لانے کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں کیا انسانیت دم توڑ چکی ہے کیا معاشرے سے انصاف اٹھ چکا ہے کیا رولز آف لا صرف قانون کی کتابوں تک رہ گیا ہے چند دن پہلے صوبائی دارالحکومت کے پوش علاقہ ڈیفنس میں ہونے والے ایک واقعہ نے ہلا کر رکھ دیا جس میں مالدار گھروں کے بگڑے نوجوانوں نے اس زعم میں ایک 26 سالہ خوبرو جوان احمد جاوید کو معمولی تکرار پر آتشیں اسلحہ سے چھلنی کر دیا یقینی طور پر ان کی سوچ ہو گی کہ ہمارا کون کیا بگاڑ سکتا ہے تاحال ان کی یہ سوچ درست ثابت ہو رہی ہے پاکستان کا قانون روائیتی پیچیدگیوں اور اثر ورسوخ کی وجہ سے خاموش ہے جن کا جوان بچہ ناحق مار دیا گیا ہو ان پر کیا بیت رہی ہو گی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نوجوان احمد جاوید کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کر پا رہے لیکن معاشرہ میں اس بارے بڑی تشویش پائی جا رہی ہے سوشل میڈیا احمد جاوید کے انصاف کے لیے بھرا پڑا ہے اخبارات میں اس ظلم کے خلاف تسلسل کے ساتھ آواز اٹھائی جا رہی ہے کیونکہ یہ واقعہ بہت درد ناک ہے ایک ایسا نوجوان بلاوجہ قتل کر دیا گیا جس کا کوئی قصور نہیں تھا جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی شادی کو ابھی چار سال ہوئے تھے جس کا ایک تین سال کا بیٹا ہے جو والد کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا اس جوان بیوہ کا کیا قصور ہے جس کی ہنستی کھیلتی زندگی اندھیر کر دی گئی اس بہن کا کیا قصور ہے جو اس دنیا میں اکیلی رہ گئی ہے جس کے شیر جیسے جوان بھائی کو بلا وجہ مار دیا گیا وہ ماں کیسے سانس لے رہی ہو گی معاشرے کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ایسے واقعات کیوں رکنے کا نام نہیں لے رہے کچھ دیر قبل رائے ونڈ میں پھل کی خریداری پر معمولی بحث کے بعد جھگڑے میں دوبھائیوں کو قتل کر دیا گیا چار روز قبل ایک واقعہ میں ایک نوجوان نے گھر کے باہر پانی پھینکنے پر فائرنگ کرکے اپنے چچا چچی اور کزن کو مار دیا ہے کچھ عرصہ قبل چنیوٹ کے علاقہ میں مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے نوجوان کو اس کے رشتہ داروں نے اس جیلسی میں مار دیا کہ یہ افسر کیوں بن گیا ہے۔
ہم آئے روز ایسے واقعات سنتے ہیں جن میں معمولی معمولی باتوں پر انسانی جانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کچھ لوگ اس کو شغل سمجھ رہے ہیں لیکن سنجیدہ حلقے اس پر بہت پریشان ہیں کہ آخر کار معاشرہ کس طرف کو جا رہا ہے معاشرے میں برداشت کا عنصر غائب ہوتا جا رہا ہے ذرا سا راستہ نہ دینے اوور ٹیک کر لینے پر اسلحہ نکال لیا جاتا ریسٹورنٹس میں کھانا دیر سے لانے یا پسند نہ آنے پر مار کٹائی شروع کر دی جاتی ہے ٹریفک اشاروں پر معمولی معمولی باتوں پر تلخ کلامی اور گالی گلوچ ہو رہا ہوتا ہے سوچنے کی بات ہے یہ کیونکر ہو رہا ہے اگر زندہ رہنا ہے تو معاشرے میں ٹالرنس کو فروغ دینا ہو گا اور صاحب اختیار لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے اور اس کو ڈکا لگانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں
ڈیفنس میں ناحق قتل ہونے والے نوجوان احمد جاوید کے خاندان کی تعمیر وطن میں بڑی خدمات ہیں اس کا خاندان اچھرہ کے متمول خاندانوں میں شمار ہوتا تھا جنھوں نے قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری سے لے کر تعمیر وطن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا کچھ عرصہ قبل میاں سعید ڈیرے والا کی ہمشیرہ کی وفات پر ہم حسن نثار کے ہمراہ ان کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں ہماری احمد جاوید کے والد میاں عادل رشید سے ملاقات ہوئی پھر فون پر اکثر رابطہ رہا لیکن کیا پتہ تھا کہ اگلی ملاقات ان کے بیٹے کی ناگہانی موت پر ہو گی ہم ان سے تعزیت کے لیے گئے تو ہم نے انھیں صبر اور ہمت واستقلال کی مجسم تصویر پایا اکلوتے جوان بیٹے کی موت پر ان کی اندرونی کیفیت کیا ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن بظاہر انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور انتظار میں ہیں کہ سسٹم انھیں کب انصاف مہیا کرتا ہے کہا جاتا ہے کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف اپنی اہمیت کھو دیتا ہے رائے ونڈ میں دوبھائیوں کو معمولی تکرار پر قتل کرنے والوں کو تو فوری کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا شاید مارنے والے بھی ماتڑ تھے لیکن قانون کی رٹ تب قائم ہوتی ہے جب بااثر لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے جب اس زعم میں مبتلا کہ ہم جومرضی کرلیں ہمیں کون پوچھ سکتا کو سزا ملتی ہے تو قانون کی رٹ قائم ہوتی ہے لوگ عبرت پکڑتے ہیں حضور نبی کریم صلی للہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ ان میں جب کوئی بڑا جرم کرتا تو انھیں چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو ان کو بھی سزا دی جاتی مجھے مقتول احمد جاوید کے والد عادل رشید کی خاموشی بڑی خطرناک لگ رہی ہے لاہور پولیس کو چاہیے کہ وہ احمد جاوید کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائے اگر عادل رشید کو انصاف فراہم نہ کیا گیا تو پولیس ازخود ایک نئی دشمنی کی بنیاد رکھ دے گی۔