105

معاشرتی قتل

معاشرے میں ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو انسان کو جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں جن پر باقاعدہ ماتم کرنے کو جی کرتا ہے اور رتی برابر بھی احساس رکھنے والا انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ آخر ہو کیا رہا ہے ہم بطور معاشرہ کس طرف کو جا رہے ہیں اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم انسانوں کے معاشرے میں جی رہے ہیں معاشرے میں ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ذرا سا ذی شعور بھی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا یہ معاشرہ انسان نما درندوں بےحس اور جنگلی جانوروں کا روپ دھار چکا ہے کیا راہ راست پر لانے کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں کیا انسانیت دم توڑ چکی ہے کیا معاشرے سے انصاف اٹھ چکا ہے کیا رولز آف لا صرف قانون کی کتابوں تک رہ گیا ہے چند دن پہلے صوبائی دارالحکومت کے پوش علاقہ ڈیفنس میں ہونے والے ایک واقعہ نے ہلا کر رکھ دیا جس میں  مالدار گھروں کے بگڑے نوجوانوں نے اس زعم میں ایک 26 سالہ خوبرو جوان احمد جاوید کو معمولی تکرار پر آتشیں اسلحہ سے چھلنی کر دیا یقینی طور پر ان کی سوچ ہو گی کہ ہمارا کون کیا بگاڑ سکتا ہے تاحال ان کی یہ سوچ درست ثابت ہو رہی ہے پاکستان کا قانون روائیتی پیچیدگیوں اور اثر ورسوخ کی وجہ سے خاموش ہے جن کا جوان بچہ ناحق مار دیا گیا ہو ان پر کیا بیت رہی ہو گی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نوجوان احمد جاوید کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کر پا رہے لیکن معاشرہ میں اس بارے بڑی تشویش پائی جا رہی ہے سوشل میڈیا احمد جاوید کے انصاف کے لیے بھرا پڑا ہے اخبارات میں اس ظلم کے خلاف تسلسل کے ساتھ آواز اٹھائی جا رہی ہے کیونکہ یہ واقعہ بہت درد ناک ہے ایک ایسا نوجوان بلاوجہ قتل کر دیا گیا جس کا کوئی قصور نہیں تھا جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی شادی کو ابھی چار سال ہوئے تھے جس کا ایک تین سال کا بیٹا ہے جو والد کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا اس جوان بیوہ کا کیا قصور ہے جس کی ہنستی کھیلتی زندگی اندھیر کر دی گئی اس بہن کا کیا قصور ہے جو اس دنیا میں اکیلی رہ گئی ہے جس کے شیر جیسے جوان بھائی کو بلا وجہ مار دیا گیا وہ ماں کیسے سانس لے رہی ہو گی معاشرے کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ایسے واقعات کیوں رکنے کا نام نہیں لے رہے کچھ دیر قبل رائے ونڈ میں پھل کی خریداری پر معمولی بحث کے  بعد جھگڑے میں دوبھائیوں کو قتل کر دیا گیا چار روز قبل ایک واقعہ میں ایک نوجوان نے گھر کے باہر پانی پھینکنے پر فائرنگ کرکے اپنے چچا چچی اور کزن کو مار دیا ہے کچھ عرصہ قبل چنیوٹ کے علاقہ میں مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے نوجوان کو اس کے رشتہ داروں  نے اس جیلسی میں مار دیا کہ یہ افسر کیوں بن گیا ہے۔ 

ہم آئے روز ایسے واقعات سنتے ہیں جن میں معمولی معمولی باتوں پر انسانی جانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کچھ لوگ اس کو شغل سمجھ رہے ہیں لیکن سنجیدہ حلقے اس پر بہت پریشان ہیں کہ آخر کار معاشرہ کس طرف کو جا رہا ہے معاشرے میں برداشت کا عنصر غائب ہوتا جا رہا ہے ذرا سا راستہ نہ دینے اوور ٹیک کر لینے پر اسلحہ نکال لیا جاتا ریسٹورنٹس میں کھانا دیر سے لانے یا پسند نہ آنے پر مار کٹائی شروع کر دی جاتی ہے ٹریفک اشاروں پر معمولی معمولی باتوں پر تلخ کلامی اور گالی گلوچ ہو رہا ہوتا ہے سوچنے کی بات ہے یہ کیونکر ہو رہا ہے اگر زندہ رہنا ہے تو معاشرے میں ٹالرنس کو فروغ دینا ہو گا اور صاحب اختیار لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے اور اس کو ڈکا لگانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں 

ڈیفنس میں ناحق قتل ہونے والے نوجوان احمد جاوید کے خاندان کی تعمیر وطن میں بڑی خدمات ہیں اس کا خاندان اچھرہ کے متمول خاندانوں میں شمار ہوتا تھا جنھوں نے قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری سے لے کر تعمیر وطن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا کچھ عرصہ قبل میاں سعید ڈیرے والا کی ہمشیرہ کی وفات پر ہم حسن نثار کے ہمراہ ان کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں ہماری احمد جاوید کے والد میاں عادل رشید سے ملاقات ہوئی پھر فون پر اکثر رابطہ رہا لیکن کیا پتہ تھا کہ اگلی ملاقات ان کے بیٹے کی ناگہانی موت پر ہو گی ہم ان سے تعزیت کے لیے گئے تو ہم نے انھیں صبر اور ہمت واستقلال کی مجسم تصویر پایا اکلوتے جوان بیٹے کی موت پر ان کی اندرونی کیفیت کیا ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن بظاہر انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور انتظار میں ہیں کہ سسٹم انھیں کب انصاف مہیا کرتا ہے کہا جاتا ہے کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف اپنی اہمیت کھو دیتا ہے رائے ونڈ میں دوبھائیوں کو معمولی تکرار پر قتل کرنے والوں کو تو فوری کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا شاید مارنے والے بھی ماتڑ تھے لیکن قانون کی رٹ تب قائم ہوتی ہے جب بااثر لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے جب اس زعم میں مبتلا کہ ہم جومرضی کرلیں ہمیں کون پوچھ سکتا کو سزا ملتی ہے تو قانون کی رٹ قائم ہوتی ہے لوگ عبرت پکڑتے ہیں حضور نبی کریم صلی للہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ ان میں جب کوئی بڑا جرم کرتا تو انھیں چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو ان کو بھی سزا دی جاتی مجھے مقتول احمد جاوید کے والد عادل رشید کی خاموشی بڑی خطرناک لگ رہی ہے لاہور پولیس کو چاہیے کہ وہ احمد جاوید کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائے اگر عادل رشید کو انصاف فراہم نہ کیا گیا تو پولیس ازخود ایک نئی دشمنی کی بنیاد رکھ دے گی۔