سویڈن کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے صومالیہ کو پانچ ملین سویڈش کراؤن (تقریباً 15 کروڑ پاکستانی روپے) کی ادائیگی کی تاکہ وہ ان صومالی شہریوں کو واپس لینے پر رضامند ہو جائے جنہیں سویڈن سے بے دخلی کے احکامات دیے گئے ہیں۔ یہ انکشاف سویڈش میڈیا کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کے بعد ملک کی اپوزیشن جماعت سوشلسٹ ڈیموکریٹس نے موجودہ وزیرِ مہاجرت یُوہان فورسیل (Johan Forssell) کو آئینی کمیٹی (Konstitutionsutskottet) میں طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ ان ادائیگیوں کی وضاحت پیش کریں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ ادائیگی اس وقت کی گئی جب فورسیل سویڈن کے تجارت و امداد کے وزیر تھے۔ معاہدے کے تحت صومالیہ کو مالی امداد دی گئی تاکہ وہ ان شہریوں کو قبول کرے جن کی پناہ کی درخواستیں سویڈن میں مسترد ہو چکی تھیں۔
ذرائع کے مطابق، سویڈن کی حکومت نے صومالیہ کے ساتھ ایک “ترقیاتی منصوبہ” کے نام پر یہ فنڈ جاری کیا، لیکن دراصل اس کا مقصد ڈی پورٹیشنز (Deportations) میں اضافہ کرنا تھا۔ سویڈن کی سوشلسٹ ڈیموکریٹ پارٹی نے اس اقدام کو “خالص رشوت” (Pure bribery) قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت انسانی حقوق اور سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ پارٹی کی ترجمان نے کہا: “یہ ناقابلِ قبول ہے کہ سویڈن کسی دوسرے ملک کو پیسے دے کر اپنے شہریوں یا پناہ گزینوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔ یہ امداد نہیں، رشوت ہے۔”
وزیرِ مہاجرت یُوہان فورسیل نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رقم دو طرفہ تعاون کے تحت ادا کی گئی تھی تاکہ “محفوظ اور منظم طریقے سے” واپسیاں ممکن بنائی جا سکیں۔ ان کے بقول: “یہ سویڈن کے مفاد میں ہے کہ غیر قانونی قیام کرنے والے افراد کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیجا جائے، اور یہ تعاون اسی مقصد کے لیے ہے۔”
یہ معاملہ اب سویڈن کی آئینی کمیٹی کے سامنے جائے گا جو یہ جانچے گی کہ آیا حکومت نے کسی قانونی یا اخلاقی اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر الزامات ثابت ہوئے تو یہ اسکینڈل سویڈن کی دائیں بازو کی حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں امیگریشن پالیسیوں پر بحث شدت اختیار کر چکی ہے۔