چلو عذاب سہیں دوستی کے یونہی سہی

چلو عذاب سہیں دوستی کے یونہی سہی

کہ وہ کسی کا ہوا ہم کسی کے یونہی سہی

ہمیں ہدف ، ہمیں بسمل، ہمیں پہ طعنہ زنی

ستم اسی کے گلے بھی اسی کے یونہی سہی

جگر فگار کرو، 💗دل کو تار تار کرو

یہی صلے ہیں اگر آگہی کے یونہی سہی

میں کب تلک ترے سفاک سچ کا زہر پیوں

وفا کے بول سنا جھوٹ ہی کہ یونہی سہی

مگر وہ لوگ تھے شاداب موسموں کے فراز

مگر وہ خواب تھے نتھیا گلی کے یونہی سہی

احمد فراز