آگ دل میں تھی، آتشدان میں تھی، روشنی بنی
باہر آئی تو وہی آگ، خاکستر کی کہانی بنی
رنگ و نور میں لپٹی ہوئی تھی خواہشوں کی راکھ
بس ایک نظر نے فریب دیا، ہر شے فانی بنی
نہ عشق رہا، نہ الفت رہی، فقط جسموں کا میل
کہاں گئے وہ وعدے، جو روح کی روانی بنی؟
چاہا جسے، وہ خواب نکلا، بازار میں بکا
حرمت بھی نیلام ہوئی، جو کبھی نشانی بنی
یہ آگ، جو ہر گھر جلا گئی، کبھی پرانی نہیں ہوتی
شاکرہ فریب کی نئی شکل میں، ہر دور کی کہانی بنی