43

لمس جاں 

وہ رات خواب نہ تھی، لیکن خوابوں جیسی تھی۔ چاندنی اپنے ہلکے سوتی آنچل سے ہمارے وجودوں کو تھپک رہی تھی۔ فضا میں کوئی شور نہ تھا، بس خامشی کی وہ زبان گونج رہی تھی جو صرف دو دلوں کی بےلباس دھڑکنیں سمجھ سکتی ہیں۔ اُس نے کچھ نہ کہا، میں نے کچھ نہ پوچھا، مگر جسموں کے درمیان جیسے کوئی پرانا وعدہ پورا ہو رہا تھا — بغیر زبان، بغیر آواز، صرف لمس کے اعتبار سے۔

 

ہم ننگے تھے، لیکن کسی حیوانی بےحسی میں نہیں — ہم اس مقام پر تھے جہاں جسم سے آگے کچھ ہوتا ہے، جیسے دو روحیں ایک دوسرے کے گرد لپٹ جائیں، نرم سانسوں کے سحر میں گم ہو کر۔

 

اُس کا لمس ایسا تھا جیسے بکھرے ہوئے لفظوں کو معنی مل گئے ہوں۔ اُس کے لب جب میرے کاندھے کو چھوتے، تو ایک اذان سی گونجتی میرے اندر — محبت کی، چاہت کی، تسلیم کی۔ میں اُس کی آغوش میں قید تھی، مگر یہ قید آزادی جیسی تھی؛ شاید اس سے بھی بڑھ کر۔

 

ہر سانس کے ساتھ اُس کے بدن کی مہک میرے اندر اترتی گئی۔ وہ پسینے کی خوشبو نہ تھی، بلکہ خوابیدہ خواہشوں کی وہ مہک تھی جو سالوں سے مجھ میں پلتی رہی تھی۔ وہ لمحے کسی عشقیہ فلم کی طرح نہیں تھے — وہ لمحے میرے تن کی تحریر تھے، میرے دل کے اندر لکھے وہ سطر جو میں نے خود بھی کبھی نہ پڑھی تھیں۔

 

ہم جب ایک دوسرے کو چھوتے، تو صرف بدن نہ چھوئے جاتے تھے، کچھ اور بھی تھا جو ہلتا تھا اندر — شاید وہ ذات تھی جو برسوں سے قید تھی۔ اُس کی انگلیاں میرے پیٹھ پر چلتی تھیں جیسے وہ میری روح پر حروف لکھ رہا ہو۔ اور میں لرزتی تھی، فقط اس لیے نہیں کہ وہ چھو رہا تھا، بلکہ اس لیے کہ میں خود کو پہلی بار محسوس کر رہی تھی۔

 

وہ رات گزر گئی، لیکن میرے اندر اُس کی یاد باقی رہی۔ جسم سے جسم کا وہ تعلق جو صرف سطحی نہیں بلکہ باطنی تھا، وہ میری ہڈیوں میں اترا، میری سانسوں کا حصہ بن گیا۔ اُس نے مجھے مکمل کیا، جیسے ادھوری نظم کو کوئی آخری مصرع دے دے۔

 

ہم دونوں کے ننگے بدن دراصل سچائی کے لباس تھے — بنا دکھاوے، بنا جھوٹ، صرف خالص وجود۔ اُس رات، ہم نے ایک دوسرے میں خود کو تلاش کیا، اور پا بھی لیا۔

 

عشق کا اصل لمس یہی ہے — جب قربت صرف جسمانی نہ ہو، بلکہ جذباتی، نفسیاتی، روحانی ہو۔ جب آنکھیں بند ہوں لیکن دل کی بینائی جاگ جائے۔ اور وہی ہوا تھا ہمارے درمیان۔ 

نزدیکیاں صرف بدن کی نہیں تھیں، یہ وہ عشق تھا جو خود کو چھپاتے چھپاتے، آخر کار بےلباس ہو گیا — اور تب جا کر، ہمیں حقیقت کی قربت نصیب ہوئی۔