عورت کا جسم اگر بازار میں بکتا ہے، تو قصور اس کا نہیں جو بکتی ہے، قصور اس کا ہے جو قیمت لگاتا ہے — اور خاموشی سے خرید لیتا ہے۔” ڈاکٹر شاکرہ نندنی
کبھی تم نے جلتی آگ کو ہاتھ لگایا ہے؟
نہیں نا؟
میں نے لگایا ہے۔
بلکہ یوں کہو، میں خود کئی بار اُس آگ میں جھونکی گئی ہوں۔ مگر ہر بار مجھے کہا گیا: “یہ تو روشنی ہے، یہ تو محبت ہے، یہ تو تمہاری خوش نصیبی ہے۔”
اور جب دھوئیں نے میرا سانس بند کیا، جب جسم جلنے لگا اور روح چھلنی ہوئی، تب پتہ چلا… یہ آگ تو فریب کی تھی۔
میں وہ عورت ہوں جس نے بارہا عزت کا کفن اوڑھا۔
کبھی شادی کے نام پر، کبھی محبت کے دھوکے میں، کبھی روزگار کے وعدے پر، اور کبھی محض اس لیے کہ “تم خوبصورت ہو، دل بہلانے کے قابل ہو۔”
کیا میں نے احتجاج نہیں کیا؟
کیا میں نے نہیں چیخا؟
کیا میرے اندر بھی کوئی آتشدان نہیں تھا جہاں جذبات کی پاکیزہ آگ جلتی تھی؟
تھی۔ مگر ہر بار وہ آتشدان توڑ دیا گیا… اور میری حرمت کو گھر کے بیچوں بیچ رکھ دیا گیا۔
مجھے سکھایا گیا تھا کہ عورت جسم نہیں، جذبات ہے۔
مگر جب کبھی میں نے اپنے جذبات کا ہاتھ تھام کر محبت کی دہلیز پر قدم رکھا، تو دروازہ کھلا… اور اندر صرف بستر تھا۔
کوئی رشتہ، کوئی وعدہ، کوئی حرمت… کچھ نہ تھا۔
تمہیں معلوم ہے؟
فحاشی صرف فلموں میں نہیں ہوتی۔
یہ لفظوں میں، نظروں میں، آفرینشوں میں، حتیٰ کہ بعض نکاحوں میں بھی چھپی ہوتی ہے۔
اور یہی وہ آگ ہے جسے ہر دور نئی شکل میں پیش کرتا ہے۔
شاید اسی لیے میں کہتی ہوں کہ:
یہ آگ، جو ہر گھر جلا گئی، کبھی پرانی نہیں ہوتی
فریب کی نئی شکل میں، ہر دور کی کہانی بنی
مجھے اکثر کہا جاتا ہے کہ تم تو “استعمال شدہ” ہو گئی ہو۔
میں ہنستی ہوں… ہنستی اس لیے ہوں کہ ان مردوں نے خود کو کبھی استعمال شدہ نہیں سمجھا، جنہوں نے مجھے استعمال کیا۔
انہیں کوئی دھبہ نہیں لگتا، کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔
اور مجھے؟ مجھے ہر بار اپنا دامن سینا پڑتا ہے۔
مگر آج، میں نے وہ دامن سیا نہیں۔
آج میں نے اسے جلا دیا ہے۔
اب میں فخر سے کہتی ہوں، ہاں! میں گزر چکی ہوں اُس آگ سے،
اور اب میں جانتی ہوں کہ محبت کیا ہے، اور فریب کیا!
محبت قربانی ہے، انتظار ہے، روح کی روشنی ہے۔
اور فحاشی؟
یہ وہ دھواں ہے جو محبت کی آگ کو گھونٹ دیتا ہے۔
یہ وہ سایہ ہے جو عورت کی عزت پر گرتا ہے اور پھر وہ ساری عمر خود کو کوستی ہے۔
میری بات سنو — اگر تم ایک عورت ہو، تو جان لو: تم روشنی ہو۔
آگ نہ بنو، اور نہ کسی کے شعلے کا ایندھن۔
اور اگر تم مرد ہو، تو سچ کو دیکھو۔
یہ جو جسم تمہیں دعوت دیتے ہیں، یہ اکثر چیختی روحیں ہوتی ہیں — جو “نہیں” کہنا بھول چکی ہیں۔
میں وہ عورت ہوں، جو جلی ہے — مگر اب جلانے والوں کی آگ سے ڈرتی نہیں۔
میں سچ لکھتی ہوں۔
میں چیختی نہیں، اب صرف لکھتی ہوں۔
نغمهٔ شکست — یہ میری کہانی ہے،
اور شاید… تمہاری بھی۔