96

ویٹی کن کا مقدس دروازہ

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یونائیٹڈ کنگڈم میں مذہب (عیسائیت) سے بیزاری میں اضافہ ہورہاہے۔ نصف صدی پہلے تک اس ملک میں عیسائیت کے پیروکاروں کا تناسب 90 فیصد سے بھی زیادہ تھا جواب کم ہو کرصرف چھیالیس اعشاریہ پانچ فیصد 46.5 رہ گیا ہے جبکہ بریٹن میں کسی بھی مذہب کے نہ ماننے والوں یعنی دہریے لوگوں کی تعداد 37.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ پونے سات کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں صرف 6  فیصد مسلمان آباد ہیں جو برطانیہ کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ یوکے میں عیسائیت کے ماننے والے بھی مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں گزشتہ برس کی تحقیق کے مطابق اس وقت ملک میں سب سے زیادہ تعداد کیتھولک عیسائیوں کی ہے جن کا تناسب 25 فیصد ہے جبکہ پروٹیسٹنسٹ(اینگلی کن) 21 فیصد پریس بیٹریر ین گیارہ فیصد پینٹی کوسٹل 9 فیصد اورآر تھوڈا کس گیارہ فیصدہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ برطا نیہ میں مذہبی رہنماؤں (پادریوں) کو زندگی کے ہر معاملے میں غیر معمولی حیثیت حاصل تھی حتہ کہ سیاسی معاملات میں بھی اُن کی منشا اور رضامندی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں جوں جوں خواندگی کی شرح اور عقل و شعور کی بیداری میں اضافہ ہوا لوگوں نے اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کے لئے پادریوں کی ٹھیکیداری اور وسیلے کو بالکل مسترد کر دیا۔ برطانوی معاشرے میں پادریوں اورر گرجاگھروں کے کردار پر درجنوں دستاویزی اور فیچر فلمیں بن چکی ہیں۔ گزشتہ برس فرانس  میں کیتھولک چرچ کے تین ہزارسے زیادہ پادریوں کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جنہوں نے دو لاکھ سولہ ہزارسے زیادہ بچوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جن میں اکثریت چھوٹی عمر کے لڑکوں کی تھی۔صرف برطانیہ ہی نہیں پورے یورپ اور (ایشیا کے علاوہ) تمام براعظموں میں لوگ مذہبی انتہاپسندی کے غلبے سے نکل رہے ہیں۔ عیسائیت بھی آہستہ آہستہ سمٹ کر صرف ویٹی کن سٹی اور اس کے مخصوص پیروکاروں تک محدود ہو رہی ہے۔ یہ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ جن ملکوں اور معاشروں میں مذہب کو بالا دستی حاصل ہے وہاں نہ تو انسانی حقوق کی پاسداری کو اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی وہاں دیانتداری اور انصاف کو اولیت حاصل ہے ایسے ممالک میں کرپشن، اقربا پروری،ملاوٹ،عدم برداشت اور منافقت عروج پر ہے۔

یونائیٹڈ کنگڈم میں ہر سال سیکڑوں لوگ عیسائیت کو چھوڑ کر مسلمان ہو جاتے ہیں یا رام اور کرشنا کے پیروکار بن جاتے ہیں مگر کوئی ان سے قطع تعلق نہیں کرتا، اس ملک کے بہت سے چرچ (گرجاگھر) ایسے ہیں جہاں کوئی پادری یا عبادت کرنے والا میسر نہیں آتا تو اسے فروخت کر دیا جاتا۔ پورے یو کے میں درجنوں چرچ ایسے ہیں جنہیں مسلمانوں نے خرید کر معمولی رد و بدل کے بعد مساجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسٹ لندن کے را مفور ڈ روڈ پر کئی سال پہلے ایک سینما (پکچر ہاوس) ہوا کرتا تھا جہاں اب ادارہ منہاج القرآن کی مرکزی جامع مسجد قائم ہے۔ ایک وقت تھا کہ گریٹ بریٹن اور یورپ میں کرسمس اور ایسٹر کومذہبی تہواروں کے طور پر منایا جاتا تھا مگر اب یہ تہوار مذہبی سے زیادہ سماجی اور تجارتی تہوار بن گئے ہیں یعنی ان تہواروں کے موقع پر بڑے چھوٹے کاروباری اداروں کی سیل اور منافع میں کئی گنااضافہ ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تیس برس پہلے جب میں نیا نیا لندن آیا تھا تو ایسٹر کے موقع پر چھٹیوں کے دوران سڑکیں اور شاپنگ سنٹر ز ویران ہوجاتے تھے۔ گرجا گھروں میں عبادت کے لئے آنے والوں کی وجہ سے رونق اورگہما گہمی دکھائی دیتی تھی مگر گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اس رجحان میں بڑی تیزی سے کمی ہوئی ہے اس سال ایسٹر پر تمام بڑے سٹورز اور تجارتی ادارے اپنے کاروبار میں مصروف رہے۔ چرچزمیں بھی ویسی رونق نظر نہیں آئی البتہ پوپ فرانسس (جارج ماریو برگو گلیو) کا انتقال اس سال ایسٹر کی سب سے اندوہ ناک خبر تھی۔ مسیحیوں کے 88 سالہ روحانی پیشوا ایسٹر کے موقع پر اپنے مختصر خطاب کے چند گھنٹے بعد21 اپریل کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے جس کے بعد دنیا بھر میں آبا د عیسائیوں اور خاص طور پرکیتھولک مسیحی اداسی،غم اور رنج و ملال کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ ویٹی کن سٹی اس وقت دنیا کاسب سے چھوٹا ملک ہے جو اٹلی کے شہر روم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک آزاد ریاست ہے جس کا آئینی سربراہ پوپ ہوتا ہے اور جو کیتھولک فرقے کے عیسائیوں کا روحانی پیشوا بھی ہوتا ہے اس وقت دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد دو ارب 40 کروڑ ہے جن میں تقریبا 37 فیصد کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اورویٹی کن سٹی ان کے لئے سب سے مقدس مقام ہے۔ اس منفردملک کا کل رقبہ آدھا مربع کلو میٹرسے بھی کم ہے اور جس کی آبادی882 افراد پر مشتمل ہے۔ ویٹی کن سٹی نے  1929 میں روم سے الگ ہو کر ایک الگ ملک کی حیثیت حاصل کی۔ اس ملک کو ورلڈ ہیریٹیج قرار دیا جا چکا ہے۔ویٹی کن سٹی کے شہری انگور کی شراب پینے کے رسیا ہیں جبکہ  یہاں سوئیٹزرلینڈ کے 135 فوجی (گارڈ) ہر وقت پوپ کی حفاظت کے لئے چوکس رہتے ہیں۔ ویٹی کن سٹی میں سینٹ پیٹرز سکوائر کی بالکونی خاص اہمیت رکھتی ہے جہاں سے کرسمس اور ایسٹر کے علاوہ دیگر کئی اہم مواقع پر پوپ فرانس (بشپ آف روم) اپنے پیروکاروں کو اپنا دیدار کرانے کے لئے نمودار ہوتے ہیں۔ ان دنوں ویٹی کن سٹی میں نئے پوپ کے انتخاب کے لئے سرگرمیاں جاری ہیں ان سطور کی اشاعت تک نئے پوپ کو منتخب کیا جا چکا ہوگا۔ رومن کیتھولک چرچ کے نئے مذ ہبی رہنما (پوپ) کا انتخاب ویٹی کن سٹی کے سینئرپادری (کار ڈینلز) کرتے ہیں اور یہ انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں رومن کیتھولک فرقے کے 252 ایسے بشپ موجود ہیں جنہیں کار ڈینلز پوپ کی حیثیت حاصل ہے لیکن ان میں سے صرف 135 کار ڈینلز نئے پوپ کے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔

رومن کیتھولک چرچ کی تاریخ میں اب تک جو 226 کارڈینلز پوپ کے منصب پر فائز ہوئے اُن میں سے 217 کا تعلق اٹلی سے تھا۔بی بی سی کی ایک رپوٹ کے مطابق”نئے پوپ کے انتخاب کے لئے تمام کار ڈینلز کو ویٹی کن سٹی کے پوپ کونکلیو میں مدعو کیا جاتا ہے۔۔مندوبین سینٹ پیٹر میں کے بسیلیکا میں عبادت کے بعدسسٹین چیپل میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں ایکسٹرا او منیس کا حکم صادر ہوتا ہے (لاطینی زبان میں اس کا مطلب ہوتا ہے، کار ڈ ینلزکے سوا ہر ایک باہر چلا جائے، ویٹی کن سٹی کی سرکاری زبان لاطینی ہے)،پہلے دن ابتدائی ووٹنگ کے بعد تمام کار ڈینلز اگلے روز صبح اور دوپہر کو دو دو مرتبہ پھر سے ووٹ ڈالتے ہیں تا وقت یہ کہ پوپ کے منصب کے لئے صرف ایک امیدوار کا نام باقی رہ جائے۔ دوسرے دن تک کوئی فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں تیسرے دن تمام کارڈینلز غور و فکر اور دعا کرتے ہیں اور چوتھے دن پھر سے ووٹنگ ہوتی ہے۔ ووٹرز کی طرف سے کسی ایک امیدوار پر اتفاق ہونے کے بعد نئے پوپ کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ووٹنگ کے دوران کار ڈینلزویٹی کن سے باہر نہیں جا سکتے انہیں ریڈیو سننے،ٹی وی دیکھنے، اخبارات پڑھنے اور ٹیلی فون یا موبائل کے استعمال کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹرز یا حفاظتی عملے کو بھی راز داری کا حلف دینے کے بعد کارڈینلز تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ووٹنگ کے دور ان ہر روز دوبار استعمال شدہ بیلٹ پیپرز کو جلا دیا جاتا ہے، جلانے سے پہلے ان پر سفید یا سیاہ رنگ ڈالا جاتا ہے سسٹین چیپل کی چمنی سے نکلنے والا کالا دھواں غیر نتیجہ خیز ووٹنگ کی علامت ہوتا ہے جبکہ سفید دھواں یہ ظاہر کرتا ہے کہ نئے پوپ کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ پوپ کے انتخاب اور تصدیق کے بعد اُسے روایتی لباس پہنایا جاتا ہے اور تمام کارڈینلز اس کی فرماں برداری کا عہد کرتے ہیں اسی دوران سینیٹ پیٹرز کی بالکونی سے لاطینی زبان میں اعلان کیا جاتا ہے کہ”ہیب مس پاپام“  جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ”ہمارے پاس ایک پوپ  ہے“ اس اعلان کے بعدنیا پوپ بالکونی میں آ کراس ہجوم کے لئے دعا کرنے کے بعد مختصر خطاب کرتا ہے جو اپنے نئے مذہبی پیشوا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے وہاں جمع ہوتے ہیں۔پوپ کے انتخاب کے بعد ووٹنگ کے ہر مرحلے کے نتائج پوپ کو دکھائے جاتے ہیں اور پھر انہیں ویٹی کن آرکائیو میں محفوظ کر دیا جاتا ہے ہے ان دستاویزات کو دوبارہ صرف پوپ کے حکم پرہی کھولا جا سکتا ہے“۔ ویٹی کن سٹی کے سینٹ پیٹرز گر جاگھر میں ایک مقدس دروازہ ایسا بھی ہے جس میں سے گزرنے والے عیسائیوں کا خیال ہے کہ وہ یہ رسم ادا کر کے اپنے گناہوں سے چھٹکارہ حاصل کر کے جنت کے حق دار بن سکتے ہیں۔ یہ مقدس دروازہ آنجہانی پوپ نے گذشتہ برس 25 دسمبر کو کرسمس کے موقع پر کھولا تھا جو کہ 6 جنوری 2026تک کھلا رہے گا۔ قیاس ہے کہ اس دوران تین کروڑ سے زیادہ کیتھولک عیسائی زائرین اور سیاح اس مقدس دروازے سے گزریں اور اپنے گناہوں سے نجات پائیں گے۔

٭٭٭