Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
61

ٹاور برج اور دریائے ستلج

یہ موسم بہار کی ایک خو شگوار دوپہر ہے، دھوپ نکلی ہوئی ہے لیکن اس میں تمازت نہیں ہے، میں دریائے تھیمز کے کنارے ایک کافی بارکی جس کرسی پر بیٹھا ہوں وہاں سے مجھے دریا کا بہتا ہوا پانی اور نیلے آسمان پر اُڑتے ہوئے پرندے اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ میرے سامنے والی میز پر ایک نوجوان انگریز جوڑا انگور کی سرخ شراب (ریڈ وائن) سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ ان دونوں کے پس منظر میں بحری جہاز بیلفاسٹ لنگر انداز ہے جس کے پیچھے مجھے ٹاور برج دکھائی دے رہا ہے۔ دریا کے کنارے چہل قدمی کرنے والے سیاحوں کے کپڑے ہوا کے جھونکوں سے لہراتے ہیں تویوں لگتا ہے کہ تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی، دریا کا کنارہ اورسمندر کا ساحل مجھے ہمیشہ سے پرکشش لگتے ہیں۔میں جب سے لندن میں مقیم ہوں مجھے دریائے تھیمز کے کنارے اور پلوں سے اس شہر کا نظارہ کرنا بہت اچھالگتا ہے۔ویسے بھی لندن ایک ایسا بے مثال شہر ہے جو اپنی شاندار تاریخی عمارتوں، عجائب گھروں، آرٹ گیلریز، پارکوں، تھیٹرز اور بہترین پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ہر ایک کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔

برطانیہ آنے سے پہلے میری بڑی خواہش تھی کہ اس  لندن برج کے درشن کروں جس پر ہر وقت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے لیکن کسی بحری جہاز کی آمد پر یہ پُل دو حصوں میں تقسیم ہو کر اوپر کی طرف اُٹھ جاتا ہے، دونوں طرف کی ٹریفک کچھ دیر کے لئے روک دی جاتی ہے۔ بحری جہاز گزر نے کے فورا بعد یہ پل پھر سے سڑک بن جاتا ہے۔ یہ پل جسے میں لندن برج سمجھتا تھا دراصل ٹاور برج ہے۔لندن برج نام کاپل اس سے کچھ فاصلے پر ہے۔لندن شہر دریائے تھیمز کے کنارے پر ہی آباد ہونا شروع ہوا تھا اس دریا کے دونوں کناروں پر آباد شہر کو آپس میں ملانے کے لئے 35 پل تعمیرکئے گئے ہیں۔ ویسے توتھیمز پربنائے گئے پلوں یعنی برجز کی کل تعداد دو سو ہے لیکن ان میں سب سے مصروف، مشہوراورتاریخی پل ٹاور برج ہے جو برطانوی دارالحکومت کی ایک علامتی شناخت بھی ہے۔ لندن آنے والا ہر سیاح اس ٹاور برج کے ساتھ اپنی تصویر ضرور بناتا اورکچھ دیرپل پر کھڑے ہوکر نیچے سے گزر نے والی واٹر بوٹس، بادبانی کشتیوں اور چھوٹے بحری بیڑوں کا نظارہ کرتا ہے۔ ٹاوربرج کودو انگریز انجینئرز جان ہیری اورہینری برونل نے تعمیر کروایاجبکہ اس کا ڈیزائن ہو ریس جونزنے بنایا تھا۔ اس پل کی تعمیر کا آغاز6 188 میں ہوا اور تکمیل 1894 میں ہوئی۔ ٹاور برج 290  میٹر لمبا، 65 میٹر بلند اور 76 میٹرچوڑا ہے۔اس کا سنگ بنیاد برطانوی کنگ البرٹ ایڈورڈ نے رکھا تھا۔ اس پل کا ایک حصہ سدک کونسل اور دووسرا حصہ ٹاور ہیملٹ کونسل میں شامل ہے۔ٹاور برج کو بنانے میں تین کروڑ دس لاکھ پتھریلی اینٹوں کو استعمال میں لا یا گیا۔اس برج کے ڈیزائن کو برطانوی آرکیٹیکٹس کے درمیان ایک مقابلے کے بعد منتخب کیا گیا تھا۔ٹاوربرج کے اوپر سیاحوں کے لئے 42 میٹر بلنددو واک ویز (راہداریاں)بنائی گئی ہیں جن کا فرش گلاس یعنی شیشے کا ہے۔ ان راہداریوں سے برج پر رواں دواں ٹریفک، دریائے تھیمز،ٹاور آف لندن (قلعے) اور دیگر تاریخی عمارتوں کو دیکھناسیاحوں کے لئے ناقابل فراموش تجربہ ہوتا ہے۔ یورپ اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں جہاں کہیں کوئی تاریخی پل موجود ہے، نوجوان سیاح جوڑے اس پل کی حفاظتی جالیوں اور فینس پر اپنے نام کاکوئی تالالگا کر چابی کو دریا میں پھینک دیتے ہیں اس تالے کو لوو لاک (Lock Love) کا نام دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس روایت کاآغاز پہلی جنگ عظیم کے دوران سربیا سے ہوا تھا جہاں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی نے اپنے نام کامشتر کہ تالا ایک پل کی فینس پر لگا کرچابی کو دریا کی نذر کر دیا تھا۔ ان دونوں عشاق نے عہد کیا تھا کہ اگر ہم جنگ کے بعد زندہ رہے تو اپنی محبت کے قفل کو دیکھنے کے لئے واپس اس پل پر ضرور آئیں گے۔ لندن کے ٹاور برج کی جالیوں پر بھی نوجوان محبت کرنے والے سیاحوں نے ہزاروں تالے نصب کر دیئے تھے جن کی وجہ سے اس تاریخی پل کے کھلنے اور بند ہونے کے علاوہ سٹرکچر میں بھی ٹیکنیکل مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے چنانچہ ٹاوربرج پرمحبت کے قفل نصب کرنے پر پابندی عائد کردی گئی مگر اب بھی بہت سے انجان نوجوان سیاح یہاں محبت کے تالے لگا دیتے ہیں جنہیں پل کی دیکھ بھال کرنے والے منتظمین کو کاٹ کر ضائع کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود وسطی لندن میں دریائے تھیمز کے ہر پل کی جالیوں اور فینس پر جابجامحبت کے تالے لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

یورپ اور دیگر کئی ممالک میں چلتے ہوئے فواروں کے پانی میں سکے پھنکنے کی روایت بھی کئی لوگوں کو بہت عجیب لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فواروں سے گرنے والے پانی میں سکے پھینکتے وقت دل میں جو خواہش کی جائے وہ ضرورپوری ہوتی ہے۔ معلوم نہیں سکے پھینکے والے ان سادہ لوح لوگوں کی خواہشیں اس طرح پوری ہوتی ہیں یا نہیں البتہ چلتے ہوئے فواروں کے حوض دھاتی سکوں سے ضرور پُر ہو جاتے ہیں جنہیں مقامی انتظامیہ جمع کرکے اپنی چھوٹی موٹی خواہشیں ضرور پوری کرلیتی ہوگی۔ لندن کا ٹاور برج برطانیہ کا مصروف ترین پل ہے جسے روزانہ 40 ہزار سے زیادہ لوگ عبور کرتے ہیں اور اسے دیکھنے کے لیے ہر سال تقریبا9 لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں، جیمز بانڈز کی ایک فلم کے علاوہ بھی کئی فلموں میں اس برج کی عکس بندی کی گئی ہے۔ ابتدا میں اس پل کا رنگ براؤن ہوا کرتا تھا لیکن 1977 میں ملکہ برطانیہ کی سلور جوبلی کے موقع پر اسے سرخ، سفید اور نیلے رنگوں سے مزین کر دیا گیا۔ ٹاور برج اور ٹاور ہل ٹیوب سٹیشن کے درمیان ٹاور آف لندن کے نام کا ایک قدیم تاریخی قلعہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس قلعے میں وائٹ ٹاور کے نام سے ایک ایسا مینار بھی موجود ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے گیار ھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ لندن شہر میں آج بھی بہت سے ایسے گرجا گھر (چرچ) اور تاریخی عمارات بہت اچھی حالت میں موجود ہیں جنہیں کئی صدیاں پہلے تعمیر کی گیا تھا۔ یہ قدیم ترین عمارتیں اور سٹرکچرآج بھی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ انگریز بہت دور اندیش ہوتے ہیں وہ کسی بھی چیز کو بنانے اور تعمیر کرنے کے بعد اسے حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔

ٹاور آف لندن ہویا برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت اُن کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اسی طرح نو سو برس پہلے بنایا جانے والالندن کا سینٹ بارتھو لومیو چرچ ہو یا برٹش میوزیم اپنے قدیم تاریخی حوالوں کے ساتھ آج قائم اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ صرف لندن یا برطانیہ میں ہی نہیں پوری دنیا میں سمجھ دار اقوام اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتیں بلکہ ان تاریخی نوادرات کی وجہ سے ان ملکوں میں سیاحت کو فروغ ملتا ہے۔ اٹلی کا شہر روم اوربرطانوی دارلحکومت اس کی بڑی مثال ہیں۔ انگریزوں نے برصغیر پر تسلط کے دوران پاکستان اور بھارت میں دریاؤں اوربیراجوں پر جو پُل بنائے تھے وہ آج بھی قائم اوراپنے بنانے والوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ میں جب بھی لندن میں ٹاور برج کودیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بہاول پور کے دریائے ستلج کے اس فولادی پُل کا خیال ضرور آتا ہے جس پر سے سیٹی بجاتی ہوئی ریل گاڑی کے گزرنے کا منظر آج بھی میری یادوں کا حصہ ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں دریائے ستلج کے کنارے سے اس پل کا نظارہ اور اس پر سے ریل گاڑیوں کے گزرنے کی گھڑ گھڑ ا ہٹ کے بعد سناٹے کی کیفیت میں آج تک فراموش نہیں کر پایا۔ یہ پل انگریزوں نے سندھ اور پنجاب میں ریلوے لائن کے نیٹ ورک کی توسیع کے لئے 1870 میں بنایا تھااو را سے ایمپریس برج کا نام دیا گیا تھا۔ دریائے ستلج تواب تقریباً خشک ہو چکا ہے لیکن4285 فٹ لمبا یہ پُل آج بھی قائم اور انگریزوں کے ریلوے نیٹ ورک کی تاریخ کا امین ہے۔اس پر سے آج بھی ریل گاڑیاں سیٹی بجاتی ہوئی گزرتی ہیں اور مسافروں کو ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف لاتی اور لے جاتی ہیں لیکن اس ایمپریس برج کی حالت بھی وہی ہو چکی ہے جو کہ ہمارے ملک و قوم کی ہے۔ ایک زمانے میں اس پل کے قریب جانا اور اس کی تصویر بنانا ممنوع تھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس نوعیت کی پابندیوں کی حاجت بھی باقی نہیں رہنے دی۔ بہاول پور میں دریائے ستلج پر ایمپریس برج ہو یا لندن میں دریائے تھیمز کاٹاور برج ان پلوں کی سیکڑوں تصاویر اب ہم اپنے موبائل فون اور کمپیوٹر پر بلا روک ٹوک دیکھ سکتے ہیں اور اگرکچھ نہیں دیکھ سکتے تووہ ان  پلوں کے نیچے سے گزر جانے والا پانی ہے جوصدیوں سے رواں دواں ہے اور جاکر گہرے سمندروں میں گر رہا ہے اورجو واپس کبھی ان دریاؤں میں نہیں آئے گا۔

٭٭٭