Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
310

لنگر خانے سے کارخانے تک, عمران اللہ مشعل

گزشہ دنوں وزیراعظم پاکستان کی طرف سے افتتاح کی جانے والی فلاحی تنظیم سیلانی اور غربت مٹاو پروگرام “احساس” کی جانب سے لنگر خانے پر توقعات کے مطابق بھر پور تنقید برائے تنقید اور بھرپور مذاق دیکھا گیا۔۔۔

پہلی بات یہ لنگر خانے کا پروگرام حکومت کا نہیں ہے نہ ہی کابینہ سے منظوری یا خزانے سے کوئ رقم مختص کرکے نہیں بلکہ سیلانی فاونڈیشن کی طرف سے پہکے سے موجود اس پرگرام کو آگے بڑھانے کے لیے احساس نے بھی تعاون کیا اور عمران خان نے افتاحی تقریب میں شرکت کی۔۔

تنقید کرنے کی پہلی سب ےس بڑی وجہ بغض عمران خان ہے کہ عمراں خان نے اس پرگرام کا افتاح کیوں کیا ۔

دوسری اپوزیشن کی تنقید تو سمجھ میں آتی ہے انہوں نے اگر حکومت دودھ کی نہریں بھی بہادیں تو روائتی تنقید کرنی ہوتی ہے لیکن عوام بھولی نہیں کہ آج تنقید کرنی والی مسلم لیگ ن نے سستی روٹی سکیم کے نام پر قومی خزانے کی اربوں روپے ڈبودیے لیکن سستی روٹی نہیں مل سکی۔۔۔

پیپلز پارٹی جس نے امریکن سائیکولو جسٹ میسلو کی تھیوری روٹی کپڑا مکان کو چرا کر اسے اپنا نعرہ بناکے عوم سے ووٹ لیتی رہی اب وہ بھی لنگر خانےپر تنقید کر رہی ہے۔۔

اگر انہوں نے کارخانے لگائے ہوئے ہوتے تو شائد آج لنگر خانے کی نوبت نہ آتی۔۔۔۔

اب آجائیں عام عوام جو اس لنگر خانے پر تنقید کر رہی ہے حقیقت کیا ہے جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں ہر گھر میں ایک یا دو بھائ کماتے ہے یا گھر کے سربراہ والد محترم کماتا ہے باقی سب مفت کی روٹی توڑتے ہے کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مفت کی روٹی نہیں کارخانے چاہے۔۔۔

ہمارے ہاسٹل کے نیچے روزانہ صبح کے وقت کم سے کم تیس سے زیادہ لوگ جن کی اکثریت بزرگوں کی ہوتی ہے وہ کسی مزدوری کی تلاش میں ہوتے ہے شام کق مزدوری نہ ملنے پر آنے جانے والے سے ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہے۔۔

جب ان سے پوچھا جائے کس جگہ سے ہو اور بچے کتنے ہے اس عمر میں تو آرام کرلینا چاہے تو کہتے ہے بچوں نے گھر سے نکال دیا ہے کوئ کہتا ہے بہوں سے گھر سے نکال دیا ہے اسلیے محنت مزدوری پر مجبور ہے اب وہی بچے اور انکی لیڈرز شام کو سوشل میڈیا پے بیٹھ کر حکومت کو گالیاں دیتے ہے اگر ایسے لوگوں کے لیے تین وقت کا کھانا مفت ملے تو کوئ بری بات نہیں ہے۔۔۔

اب تیسرا طبقہ دانشوروں اور صحافی حضرات کی ہے جو تنقید برائے تنقید میں پیش پیش ہے حالانکہ حقیقت دیکھا جائے تو یہی سب سوائے چند ایک خود داروں کے یہی دانشوران اور صحافی حضرات پچھلے حکومتوں میں ایسے لنگروں کے مہمان تھے جہاں سے تین وقت کی روٹی نہیں کڑورں کی اشتہارات بمعہ لفافے مفت کے ہیلی کاپٹر کے ہچکولے سرکاری اخرجات سے حج اور مفت اندرون بیرون ملک سفر پلاٹس سب بروقت مہیاتھے۔

اس وقت نا تو عام کسی آدمی کو اعتراض کرنے کی ہمت ہوئ نا ہی کسی اور دانشور کو اس مفت خوری پر اعتراض ہوا کیونکہ یہ پروگرام کسی غریب کے لیے نہیں بلکہ قیک مخصوص طبقے کے لیے تھا۔۔

اب یہ سب بند ہوچکا ہے تو سب تنقید برائے تنقید میں شامل ہوئے میرا بھی اس لنگر خانے پر اعتراض ہوتا اگر سرکاری خزانے سے کچھ جاتا یا حکومت اپنا کوئ ایسا پروگرام لنگرخانے کا پروگرام بناتی سب کو لنگر خانہ تو جلدی یاد آگیا لیکن احساس پروگرام کے دیگر عملی کام جو پہلی بار عام عوام اور غریب کے لیے ہورہے ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہا ہے بس ہم نے ہر جگہ بلاوجہ تنقید برائے تنقید کرنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں