202

سیاست کوئی کھیل نہیں

فرعون کے لہجے میں بولنے والے پھراسی طرح معافیاں مانگتے پھرتے ہیں۔ اسی لئے توکہاجاتاہے کہ انسان کواوقات میں رہناچاہئیے۔ جوش خطابت اورفرط جذبات میں جولوگ اپنے اوقات بھول جاتے ہیں ایسوں کی پھرکورٹ،کچہریوں میں ہی اوقات سے ملاقات ہوتی ہے۔ ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ نادان کپتان کواس سٹیج اورنہج تک نہیں جاناچاہئیے جہاں سے پھرواپسی کاراستہ نہ ہومگرتکبر، غرور، خودپسندی اور خودغرضی کے لاعلاج مرض میں مبتلا کپتان کو ناک رگڑنے کاکچھ زیادہ ہی شوق تھا جس کے لئے انہوں نے نہ صرف اوقات کی ہرحدکو پارکیا بلکہ اخلاقیات کوبھی پائوں تلے روندنے سے دریغ نہیں کیا۔ اپنی ادائوں اور انائوں پرقائم رہنے کی اگر ہمت نہیں تو پھر ہر مجمع میں یہ روایتی اورعادتی للکارکیوں۔؟ انسان قد، کاٹ، عہدے اوررتبے کے لحاظ سے جتنابڑاہوتاہے اسی حساب اورکتاب سے وہ پھرنہ صرف زبان کھولتاہے بلکہ ایک ایک قدم پھونک اورچونک کراٹھاتا ہے مگرکپتان شائدامریکی غلامی کی طرح اخلاقیات کی ان تکلیفوں اورمشقتوں سے بھی آزادہیں کہ انہیں زبان کھولتے اوراس طرح کے غیرضروری ونامناسب ا قدام اٹھاتے ہوئے قدکاٹ اورسابق وزیراعظم والے لاحقہ کابھی کوئی خیال نہیں آتا ۔ آڈیولیکس سے اورکچھ ہویانہ لیکن اس ایک بات کی تصدیق تو ہوگئی ہے کہ کپتان کاکام کھیلنا فقط کھیلنا ہی ہے۔ ویسے کرکٹ کا کھلاڑی کھیلنے کے سواجانتابھی کیاہے۔۔؟

کھلاڑی وہ چاہے کرکٹ کا ہو۔۔ ہاکی، فٹبال، والی بال یا پھر باسکٹ بال۔ اس کا توکام ہی کھیلناہوتاہے۔۔ یہ پوری دنیاجانتی ہے کہ عمران خان کوئی ڈاکٹر، انجینئر، تاجر، سرمایہ کار، صعنتکار، سیاستدان اورسائنسدان نہیں بلکہ وہ کرکٹ کے ایک کھلاڑی ہیں اورکھلاڑی بھی ایسے کہ جن کی کپتانی میں پاکستان 1992کاورلڈکپ بھی جیت چکے ہیں۔۔ اب اگروہ کہے کہ ہم نے سائفرپرکھیلناہے تواس میں حیران یا پریشان ہونے والی بات کیا۔؟ اگر انصاف کی نظروں سے دیکھاجائے توکھلاڑی کوکھیلنے کے لئے توایک بہانہ چاہئیے ہوتاہے وہ چاہے سیاست، حکومت، اقتداراوروزارت عظمی کے ذریعے ہویاپھرکسی سائفراوروائپرکے ذریعے۔ جن لوگوں کو کپتان کی آڈیولیکس سے تکلیف اورکھیلنے والی بات پریوتھیوں کی طرح دل کے دورے پڑنے شروع ہوگئے ہیں کیاان لوگوں کوکپتان کے ان ساڑھے تین چارسالوں کی برکات وانوارات کاکوئی علم اورکوئی اتہ پتہ نہیں۔۔؟جن ساڑھے تین چار سالوں میں کپتان صرف سائفرنہیں بلکہ مسافروں کی کھوپڑیوں سے بھی خوب کھیلے۔ کیاعمران خان اپنی حکمرانی میں عوام کی امنگوں، امیدوں اور آرزوؤں سے نہیں کھیلے۔؟کیاکپتان ساڑھے تین سال تک غریبوں کی غربت سے کھیلواڑنہیں کھیلتے رہے۔؟ کیاعمران خان اس ملک میں سیاست کے نام پراخلاق اورشرافت سے نہیں کھیلے۔؟ کیا کپتان نے ساڑھے تین سال میں میرٹ اورانصاف کے چھکے اور پرخچے نہیں اڑائے۔؟ کیاعمران خان اپنے دورمیں ملک کی معیشت اورترقی سے گرائونڈکے چاروں طرف جم کرنہیں کھیلے۔۔؟ صرف تین چار سالوں میں ملک کومہنگائی خانہ بناکرغریبوں کوغربت، بھوک اور افلاس کے منہ میں دھکیلنا کیایہ کھیلنانہیں۔؟ اورکھیلناپھرکسے کہتے ہیں۔؟ ساڑھے تین سال وفاق کے گرائونڈ پرعمران خان جس طرح اس ملک کے مجبور، لاچار اور بے بس عوام سے کھیلے واللہ غریبوں کے اس طرح چھکے اورچوکے توان حکمرانوں اورسیاستدانوں جن کوکپتان آج بھی چوراورڈاکوکہتے ہوئے نہیں تھکتے انہوں نے بھی کبھی نہیں اڑائے۔

پچاس کی چیز کو سو اور سو والی شئے کو ہزار تک پہنچانے کو ہی تو کھیلنا کہتے ہیں اورعوام جانتے ہیں کہ یہ کھیل اس ملک میں کس نے کھیلاہے۔ اسی کھیل کا اثروثمر توہے کہ اب لوگ کپتان کے 1992والے کھیل کوبھی بھول چکے ہیں۔ کوئی مانیں یانہ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کپتان کاکام کھیلناصرف کھیلناہے۔ وہ چاہے گیند اور بیٹ کے ذریعے ہو یا پھر عوام کی کھوپڑیوں اورٹوکریوں کے ذریعے۔ معیشت کی ڈولی نکلتی ہے یا جنازہ۔؟ عوام بھوک سے مرتے ہیں یابے انصافی سے۔؟ لوگوں کے مکان بنتے ہیں یاگرتے۔؟ ملک میں کوئی کام کاج اور کاروبار ہے یانہیں۔؟ غربت ختم ہوتی ہے یاغریب۔؟ان چھوٹی چھوٹی باتوں اورفضول چیزوں سے کپتان کانہ پہلے کوئی لینادیناتھااورنہ اب ہے ۔کپتان کے لئے بس کھیلنے کے لئے گرائونڈاورکرائوڈچاہئیے۔ملک سے جس وقت معیشت کاجنازہ نکل رہاتھااورملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھاکپتان اس وقت اگرکھیلنے کونہیں بھولے تواب یاآگے یہ اس کھیل کوکیسے بھول پائیں گے۔؟عمران خان سیاست کوبھی کرکٹ کی طرح ایک کھیل سمجھتے ہیں ۔ہم پہلے بھی کئی بارکپتان کی خدمت میں عرض کر چکے ہیں اوراب بھی اس گستاخی کاارتکاب کررہے ہیں کہ خان صاحب یہ سیاست ہے کرکٹ یابچوں کاکوئی کھیل نہیں۔سیاست لوگ عوام کی خدمت کے لئے کرتے ہیں کوئی کھیل کودیاکوئی ورلڈکپ جیتنے کے لئے نہیں۔یہاں عوام کے دل جیتے جاتے ہیں کوئی کپ نہیں۔اس ملک کے عوام نے آپ سے بڑی امیدیں اورتوقعات وابستہ کی تھیں لیکن افسوس آپ اس ملک کے 22کروڑعوام کوگیند(بال)سمجھ بیٹھے۔

آپ نے اپنے بلے کے ذریعے عوام کے سروں پرمہنگائی،غربت،بیروزگاری اوربے انصافی کے جوشارٹس لگائے ہیں اس کے جھٹکے اب تک عوام محسوس کررہے ہیں۔آج دو ڈھائی ہزارروپے کاصرف بیس کلوآٹالیتے ہوئے جب عوام مہنگائی کی فریادکرتے ہیں توآگے سے جواب ملتاہے کہ یہ اس کھیل کانتیجہ ہے جوعمران خان ساڑھے تین سال تک کھیل کرگئے ہیں۔خان صاحب آپ اگراپنے دوراقتدارمیں سیاست کے نام پراس طرح کے نت نئے کھیل نہ کھیلتے توآج اس ملک میں غریبوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ساڑھے تین سال تک مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کے پہاڑتلے دبنے والے عوام آپ کومسیحاسمجھ کربلاتے اورپکارتے رہے لیکن آپ کوسائفر اور وائپر پر کھیلنے سے فرصت نہیں ملی۔ خان صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک اچھے اورتجربہ کارکھلاڑی ہیں، آپ پہلے بھی کھیلے ہیں، اب بھی کھیل رہے ہیں اورآئندہ بھی کھیلیں گے لیکن خان صاحب خداراغریبوں کی مجبوریوں، لاچارگیوں اوربے بسیوں سے یہ کھیلناشیلنابندکردیں۔ عوام اگرآپ کولیڈر، قائد اور ایک کپتان سمجھتے ہیں تواس کایہ مطلب نہیں کہ آپ ان کے ہی سروں سے کھیلناشروع کردیں۔ یہ سیاست اورخدمت کامیدان ہے کرکٹ، ہاکی یا فٹبال کا کوئی کھیل نہیں کہ آپ کے ہاتھ جولگے آپ اس پرکھیلناشروع کردیں گے۔