271

پاکستانی عوام کو ذرا تحمل کی ضرورت ہے۔

سانحہ ساہیوال پاکستان کے چہرے پر لگے بُہت سارے بدنُما داغوں میں ایک اور بڑا داغ ہے۔ جس کی شِدت ایک لمبے عرصے تک محسُوس ہونی چاہئیے لیکن عوام تسلی رکھیں ایسا کُچھ نہیں ہونے والا کیونکہ بطور قوم ( حالانکہ ہم ایک قوم نہیں ہیں ) ہم سب گجنی فِلم کے سنجے سنگھانیا ہیں یعنی شارٹ ٹرم میموری لاسٹ کے مریض۔ کہنے کو بڑا تلخ ہے لیکن کیا کِیا جائے کہ یہی سچ ہے، یہ واقعہ نہ تو پہلی بار ہُوا ہے اور اس سے بھی بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ آخری بھی نہیں ہے۔ سانحہ خروٹ آباد ہو یا رینجرز کے ہاتھوں کراچی میں ایک نوجوان کی ہلاکت ہو ایسے واقعات بلکہ سانحات ہمارے بھدے چہرے پربد نُما داغوں کی طرح ہیں۔ کیا ہم سب جذباتی لوگ تھوڑا سا رُک سکتے ہیں؟
آپ کے ادارے اچھے بُرے جیسے بھی ہیں مریخ سے نہیں آئے یہیں میرے اور آپ جیسے بدمزاج ، اُکھڑ اور جلد باز لوگوں سے بھرے ہیں۔ مانا کہ پروفیشنلز کو ایسے نہیں ہونا چاہئیے۔ اُن کا تو کام ہی ایسے مواقع پر اپنے اعصاب کو کنڑول کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کیا کہوں کہ پہلے ہم کِس فیلڈ میں اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھ پا رہے ہیں ؟ کرکٹ کے بَلے باز سے لیکر سڑک پر گاڑی چلانے والے عام شہری تک، وزیرِ اعظم سے لیکر ایک عام شہری تک، سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں کو تشدد کرکے ،ڈاکو کہہ کر مارنے سے لیکر، مسیحی بھائیوں کی بستی جلانے تک، گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے سے لیکر مشعال خان کو سرِعام توہینِ مذہب کے نام پر سفاکانہ تشدد کرکے مارنے تک، بچوں کے دُودھ میں مِلاوٹ بلکہ بال صفا پاؤڈر اور مردہ لاشوں کو محفوظ کرنے والے کیمکل سے سفید مائع جِسے دُودھ کہہ کر بیچا جاتا ہے سے لیکر جان بچانے والی ادویات تک ہم عوام ہی مُجرمانہ کردار کے مالک ہیں۔
اب ایسے عوام ہوں جِن کا اجتماعی ضمیر مر نہیں چُکا بلکہ شیطان کے ہاں گِروی ہو اُن کو حُکمران کیسے مِلیں گے یا اُن کے ادارے کیسے ٹھیک ہونگے؟ کوئی کہتا ہے ‘سی ایم پنجاب زخمی بچے کے پاس پُھول لیکر گیا وُہ ڈفر ہے’ ٹھیک ہے! یہ نامُناسب تھا، لیکن میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہُوں کہ اگر وُہ خالی ہاتھ جاتا تو یہی کہا جاتا کہ گدھے کو اِتنا بھی نہیں احساس کہ مریض کی عیادت پر پُھول لے جاتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر لوگ اپنے بچوں کی تصاویر لگا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مارنا ہوتو بچوں کے ساتھ ہی مار دینا۔ نِری جذباتیت! ایسے نہیں ہوتا بھئی، غلطی ہُوئی ہے بلکہ سنگین مُجرمانہ غفلت برتی گئی ہے۔ لیکن یہ حقیقی زندگی ہے، عدالتیں ہیں فِلم تو ہیں نہیں کہ آپ کو آن کیمرہ کارروائی دِکھائی جائے؟سٹیٹ اچھی بُری جیسی بھی ہے، جو ہے فی الحال اُسی سے گُزارا کریں۔ اب کوئی انقلاب کی باتیں کرتا ہے، تو کوئی فرانس کی مِثال دیتا ہے ایسا ہے، تو بھیا یہ بھی سُن لیں کہ نرم ہاتھ دیکھ کر اگر گردنیں کاٹی جائینگی تو مُلک میں چند لاکھ افراد ہی نرم ہاتھوں والے ہیں یہ بھی دھیان میں رکھئیے گا۔
جب جب ایسے واقعات ہوئے ہیں اینٹی سٹیٹ افراد اپنا چُورن بیچنے آجاتے ہیں کہ اب ہاتھوں ہاتھ بِکے گا اور یقین کیجیئے ہم خریدتے بھی ہیں بِنا سوچے سمجھے خریدتے ہیں، کبھی سیاسی تعصب میں اندھے ہوکر تو کبھی جذبات میں بہہ کر۔سٹیٹ لیس سوسائٹی کو فروغ نہ دیں کہ ابھی بھی جُرم کرنے سے پہلے مُجرم کو کہیں نا کہیں قانُون کا خوف ہوتا ہے بھلے کم ہی سہی لیکن ہے تو۔ اگر یہ بھی نہ رہا تو کیا ہوگا یہ سوچنے کے لئے افلاطون ہونا بالکل ضروری نہیں۔ ذرا دَم لیں کیونکہ تحقیقات جاری ہیں۔ اِہلکاروں کی غفلت بُہت بھیانک سہی لیکن اُن کو راتوں رات پھانسی گھاٹ پر دیکھنے کی خواہش اُس سے بھی زیادہ احمقانہ و بچگانہ سوچ ہے۔ قانُون کو اپنا راستہ اپنانے دیں اور ہر سانحے کے بعد چوک پر لٹکتی لاشیں دیکھنے والوں کے اندر بھی ایک وحشی چُھپا ہُوا ہے جو اپنی وحشت کو سُکون دینا چاہتا ہے۔ کہنے کو اور بُہت کُچھ کہا جاسکتا ہے لیکن ابھی جذبات کے سمندر میں طُوفان آیا ہُوا ہے، سمجھ نہیں آئے گا، اِس لئے پھر سہی۔
Haroon Malik .

اپنا تبصرہ بھیجیں