486

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر (حصہ دوئم)

بن گورین ائرپورٹ تل ابیب سے باہر نکلتے ہی شیئرڈ ٹیکسی کا سٹینڈ تھا، ٹیکسی کیا تھی، لاہور میں چلنے والی پرانی ہائی ایس کی طرح کی ویگن تھی، ڈرائیور کے مخالف سمت والے دروازے پر نلکے کی ہتھی کی طرح کی ایک لمبی سولاخ دروازے کے قبضے کے ساتھ جڑی تھی، جبکہ سلاخ کا دوسرا سرا ڈرائیور کے پاس ڈیش بورڈ پر ایک کنڈی کے ساتھ جڑا ہوا تھا، گاڑی چلانے سے پہلے ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ سے سلاخ کو کھینچ کر مخالف سمت والا دروازہ بند کرکے کنڈی لگا دیتا تھا، یہ دیسی طریقہ اسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب کے بڑے ائرپورٹ کے باہر گاڑیوں میں موجود ہونا حیرت کا باعث ہے کیونکہ یہودی پوری دنیا میں ذہانت میں مشہور ہیں۔

ائرپورٹ سے سالم ٹیکسی ڈھائی سو شیکل اسرائیلی کرنسی میں جاتی تھی، جبکہ شیئرڈ ٹیکسی کے ہم دو بندوں نے ڈیڑھ سو شیکل ادا کیئے اور ڈرائیور مختلف لوگوں کو راستے میں اتارتا ہوا ہمیں یروشلم میں ہمارے ہوٹل کے دروازے کے آگے اتار گیا، اندر استقبالیہ ڈیسک پر ہوٹل بکنگ کا پیپر دکھایا تو انہوں نے دو سنگل بیڈ والا کمرہ الاٹ کر کے اسکا انٹری کارڈ ہمارے حوالے کر دیا۔ رات کے دس بج چکے تھے، اور صبح بوفے بریک فاسٹ کا وقت سات سے نو بجے تھا، لحاظہ سر درد کی گولیاں کھا کر سونے میں ہی غنیمت سمجھی، صبح فجر کے وقت مختلف سمتوں سے اذان کی آواز سنائی دینے پر آنکھ کھل گئی، بہت اچھا محسوس ہورہا تھا، کیونکہ سٹاک ہوم میں اذان کی آواز کا سننا ایک خواب جیسا تھا، لیکن یہاں بھی حیرانی ہو رہی تھی، کیونکہ یروشلم کی اکسٹھ فیصد آبادی یہودی، پینتیس فیصد آبادی مسلمان اور دو فیصد آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے، ایسے میں اذان کی آواز کا سپیکر کی مدد سے گھروں میں سنائی دینا ہمارے لئے یقیناً حیران کن تھا، کمرے کی الماری میں ہوٹل والوں نے ایک عدد جائے نماز بھی رکھی تھی، بنیادی انسانی ضروریات سے فارغ ہو کر نماز ادا کی اور ناشتہ کرنے مقررہ جگہ پر پہنچ گئے۔

ناشتے میں دس بارہ اقسام کی مختلف چیزیں اور تین چار اقسام کے فروٹ جوسز رکھے گئے تھے، ناشتہ کرنے کے بعد ہلکی غنودگی طاری ہورہی تھی، اسلئے ایک دفعہ پھر کمرے میں سونے چلے گئے۔ دوپہر ساڑھے بارہ بجے جمعہ کا وقت تھا، تیار ہو کر ریسپشن سے پوچھا کہ مسجد اقصیٰ کس طرف ہے، انہوں نے کہا کہ باہر چلے جائیں جس طرف لوگ جا رہے ہونگے اسی طرف مسجد ہے، حیرانی سے باہر نکلے، تو دیکھا کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایک طرف دوڑے چلے جارہے ہیں، ہم بھی انکے ساتھ ساتھ چلنے لگے، یہ لوگ مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک بڑے دروازے باب الساحر  ( ھیروڈ گیٹ) پر آگئے، جس کے اطراف میں بیس پچیس فٹ اونچی دیواریں بنی ہوئی تھیں، ہم ان لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے تو اندر بہت چھوٹی چھوٹی گلیاں نظر آئیں، یہ علاقہ سو فیصد اندرون لاہور جیسا تھا، کئی گلیاں بہت زیادہ تنگ تھیں کہ یہاں سے دو تین بندوں کا اکٹھے جانا مشکل نظر آتا تھا۔

پانچ سات منٹ سینکڑوں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ ان تنگ گلیوں میں چلنے کے بعد ہم ایک گلی میں مڑے تو وہاں لوڈڈ رائفلیں لیکر پولیس اور فوجی اہلکار کھڑے تھے، انہوں نے ہجوم کے اندر سے ہمیں ایک طرف کر لیا اور حمزہ بھائی کو دوسرا کلمہ سنانے کو کہا، انہوں نے سنایا مجھے سورۂ الناس سنانے کا حکم ہوا، خالی مسلمان کہنے پر وہ مطمئین نہیں ہوئے تھے، انہیں سورۂ الناس سنائی تو جانے کی اجازت مل گئی۔ ساتھ چلتے دوسرے لوگوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں سے غیر مسلم مسجد اقصیٰ کے اندر نہیں جاسکتے، گلی کے اختتام پر ایک بڑا گیٹ تھا جہاں مزید اسرائیلی پولیس کے لوگ کھڑے تھے، انکی نظر بھی ہم پر پڑھ گئی، انہیں الحمداللہ مسلمان کہہ کر جان چھڑا لی گئی، آگے بہت بڑا کھلا میدان تھا، لوگ اس میدان میں بھی صفیں بنا کر جمعہ کا خطبہ سن رہے تھے، ہم انہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے چلتے گئے، یہاں تک کہ ڈوم آف راک کی بڑی عمارت نظر آگئی، اس عمارت کے اندر اور باہر ہزاروں کی تعداد میں خواتین بیٹھی نظر آئیں جو جمعہ کا خطبہ سن رہی تھیں، انہیں بائی پاس کرتے ہوئے ہم لوگ مسجد اقصیٰ کے سامنے والے حصے میں آگئے، یہاں پتھروں کا فرش بنا ہوا تھا، اور جائے نماز ، صفیں یا قالینوں کی بجائے لوگ ننگے پتھریلے فرش پر جوتوں سمیت بیٹھے جمعہ کا خطبہ سن رہے تھے، ہم لوگوں نے جوتے اتار کر سامنے رکھ دئیے اور صفیں بنا کر زمین پر بیٹھ گئے۔

یروشلم کو پیغمبروں اور نبیوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، اور خدا معلوم کس کس جگہ ان عظیم ہستیوں کے پاؤں لگے ہوں، یہ سوچ کر ہمیں زمین پر بیٹھنا بھی اپنے لئے باعث رحمت لگ رہا تھا، خطبہ کے بعد جمعہ کی فرض نماز ادا کی اور جب سجدہ میں پیشانی ہلکی مٹی والے پتھریلے فرش پر لگی تو اپنی خوشُ قسمتی پر رشک آیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنی رحمت اور کرم سے اس پاک مٹی والے فرش پر سجدہ کرنے کی توفیق بخشی، جہاں کبھی پیغمبروں اور نبیوں کے پاؤں لگے ہونگے۔

( ڈوم آف راک)

مسجد اقصی کا بیرونی حصہ

مسجد اقصی کا اندرونی حصہ

اندرونی حصے کی ویڈیو

نماز سے فارغ ہوئے تو ہمارے ساتھ نماز پڑھنے والے فلسطینی بھائی نے ہمیں اسلام وعلیکم کہا، مصافحہ کیا اور ہمیں زیارات کروانے میں مدد کی پیشکش کی، ان صاحب نے ایک سانس میں لگ بھگ پندرہ بیس نبیوں کے مقامات کا نام لے ڈالا، ہمیں یہ سب سن کر بہت خوشی محسوس ہوئی کہ اللہ نے غیب سے ہمارے لئے زیارات کروانے والا بندہ بھیج دیا ہے، ان صاحب نے ساری زیارات کروانے کے لئے ہم سے پانچ سو یورو طلب کئیے، ہم ابھی شش وپنج میں ہی تھے، کہ ایک فلسطینی بھائی نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ہر داڑھی والے پر یقین نہ کرنا یہاں لوگ بیوقوف بنا کر پیسے لے لیتے ہیں، مسجد اقصیٰ کے اندر یہ حیران کن بات سن کر ہمیں یقین نہ آیا، زیارات والے صاحب کو تین سو یورو کی آفر کی تو وہ غصے میں یہ کہہ کر آگے چلے گئے کہ محمد ذکریا جتنی قیمت بتا رہا ہے اس سے کم میں کہیں سے بھی نہیں مل سکتی۔

( حمزہ ایاز، خطیب اعلی اقصی مسجد شیخ عکرمہ سید صابری، طارق محمود)

اتنے میں زیادہ تر لوگ مسجد سے جاچکے تھے، اچانک ہمیں مسجد کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے خطیب صاحب نظر آئے، لوگ انکے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے، ہم بھی انکے نزدیک گئے اسلام وعلیکم کہہ کر مصافحہ کیا اور انکے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ یہاں موجود ایک اور صاحب نے ہمیں گھیر لیا اور زیارات کروانے کی آفر کر ڈالی، یہ صاحب ہمیں تقریباً دس گھنٹوں کے اندر یروشلم اور اسکے اردگرد سے لیکر بحیرۂ مردار تک کی زیارتیں چار سو ڈالر میں کروانے کی حامی بھر رہے تھے، یہ صاحب ہمارے ساتھ مکمل طور پر نتھی ہو چکے تھے اور ہمیں پہلی زیارت زبردستی کروانے کے لئے مسجد براق کی طرف چل دئیے، جہاں نبی صلی اللہ وسلم نے معراج کی رات اپنا براق باندھا تھا۔

( جاری ہے)

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر (حصہ دوئم)” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں