556

میں نے جبل الطارق میں کیا دیکھا

یہ ایک ایسے پہاڑی جزیرے کے سفر کی داستان ہے جسے دیکھنے کی تمنا لڑکپن سے ہی میرے دل میں پنپنا شروع ہو گئی تھی میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کیسا خطہ ہو گا جہاں سے روانگی کے بعد ایک مسلمان سپہ سالارنے اپنی کشتیاں جلا کر یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا۔ 2.6 مربع میل رقبے پر مشتمل یہ پہاڑی جزیرہ جو کبھی جبل الطارق کہلاتا تھا اب جبرالٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اب یہاں تقریباً 34ہزار افراد آباد ہیں۔ اس جزیرے اور افریقی ملک مراکو کے شہر طنجیر (طنجہ) کے درمیان بحر اوقیانوس یعنی اٹلانٹک اوشن کا 14 کلومیٹر کا سمندری راستہ حائل ہے جبکہ اس کے دوسری طرف سپین (ہسپانیہ) کا ساحلی شہر ماربیلا اور بحیرہ روم یعنی میڈی ٹرینین سی ہے۔

کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے یہ میرا آخری سفر تھااس سفر میں نسیم احمد اور شہزاد خان میرے ہمراہ تھے بلکہ میں اُن کا ہم سفر تھا۔ ہمارا قیام مالاگا میں تھا جو سپین کا ایک پرکشش تفریحی مقام اور چھٹیاں گزارنے کے لئے شاندار ساحلی علاقہ ہے اس شہر میں معتدل درجہ حرارت کے سبب سارا سال سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہیں ہمارا پڑاؤ ساحل کے ساتھ ایک ہالیڈے رزارٹ میں تھا جہاں سوئمنگ پول اور جکوزی سے لے کر ہر طرح کی سہولت اور آرام میسر تھا۔ ہمارا پہلا دن تو مالاگا کی رونقیں اور رعنائیاں دیکھنے میں گزر گیا اور شام ڈھلے ہم نے ایک ساحلی ریستوران پر پہلی بار (پائیلا)یعنی مچھلی، پران اور چاول وغیرہ سے بنی ہوئی خاص روایتی سپینش فوڈ کھائی تو دن بھر کی تھکن دور ہو گئی۔ اگلے روز ہماری منزل جبرالٹر تھی چنانچہ ہمیں پہلے ماربیلا پہنچنا تھا جہاں سے ہمیں امیگریشن کے مرحلے سے گزر کر جبل الطارق میں داخل ہونا تھا۔جب ہم امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو ہم سے پہلے چند سیاحوں کے علاوہ اُن لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جو روزآنہ سپین سے کام کاج کے لئے جبرالٹر جاتے ہیں۔ جبرالٹر چونکہ برطانیہ کی 14 اوورسیز ٹیریٹری (Oversease Territory) میں سے ایک ہے اس لئے برطانوی پاسپورٹ والے مسافروں کو کسی قسم کے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ امیگریشن کی رہداری سے گزر کر جب ہم جبرالٹر میں داخل ہوئے تو موسم ابر آلود تھا اور تیز ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا، ہمارے سامنے ایک قطار میں کوچز کھڑی ہوئیں تھیں جو مسافروں کو شہر تک لانے لے جانے کے لئے متعین تھیں۔ شہر میں داخل ہونے کے لئے مسافروں کو وہ چھوٹی سی آبنائے عبور کرنا پڑتی تھی جس پر اب جبرالٹر ایئرپورٹ بنا ہوا ہے۔ کسی پرواز (فلائیٹ) کی آمد پر ٹریفک کے لئے سڑک بند کر دی جاتی ہے یعنی اس ہوائی اڈے کا رن وے جہاز اور گاڑیوں دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کوچ نے جب ہمیں شہر کے داخلی راستے کے آغاز میں اتارا تو ہمیں یوں لگا کہ ہم انگلستان میں آ گئے ہیں۔ وہی سرخ رنگ کے ٹیلی فو ن بوتھ، پوسٹ کوڈ سمیت سڑکوں کے سائن بورڈ،سرخ لیٹر بکس بلیک کیبز اور برٹش یونیفارم میں ملبوس پولیس، خریداری کے لئے برطانوی طرز پر بنی ہوئی ہائی سٹریٹ اور جانے پہچانے ناموں والے شاپنگ سٹورز۔ ہماری اجنبیت یک دم شناسائی میں بدل گئی ہم نے کوچ سے اترتے ہی ایک ٹیکسی لی جس نے ہمیں پورا جبراالٹر دکھانے بلکہ سیر کرانے کی حامی بھر لی ٹیکسی ڈرائیور انگریز تھا جو چند برس پہلے ہی لندن سے جبرالٹر منتقل ہوا تھا، چیلسی فٹ بال کلب کا زبردست فین یعنی مداح تھا۔

جبرالٹر کے بارے میں بہت سی باتیں تو پہلے سے ہمارے علم میں تھیں کچھ اس ٹیکسی ڈرائیور نے بتا کر ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔ جبرالٹر مشرق اور مغرب کا سنگم ہے او ریہاں کے موسم میں بھی افریقہ اور یورپ کا دلفریب امتزاج سارا سال محسوس کیا جا سکتا ہے اس جزیرے کا قدرتی حسن اپنی جگہ لیکن اس فطری حسن کا تحفظ اور تاریخی باقیات کو محفوظ کرنا بھی قابل ستائش ہے انہی دو چیزوں کی وجہ سے جبرالٹر سیاحوں کے لئے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خلیفہ الولید اول کے زمانے میں افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے 710ء میں طارق بن زیاد کو طنجیر کا گورنر مقرر کیا۔ طارق بن زیاد 670ء میں پیدا ہوا جس کا تعلق الجیریا کی بربر نسل سے تھا وہ ایک بہادر، نڈر، ذہین اور دور اندیش جنگجو کمانڈر تھا ابتدائی عمر میں وہ غلام تھا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد اُسے آزادی نصیب ہوئی تو اس نے اپنی ساری زندگی اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ وہ بحر اوقیانوس عبور کر کے ہسپانیہ کو فتح کرے اُس وقت ہسپانیہ پرتگال اور سپین پر مشتمل یورپ کی بہت طویل داخلی سرحد تھا۔ طنجیر اور ہسپانیہ کے درمیان جبرالٹر کا پہاڑی جزیرہ حائل تھا۔ طارق بن زیاد نے اپریل 711ء میں بحری کشتیوں کے ذریعے اپنے جانثار فوجی دستوں کے ہمراہ سمندر عبور کر کے جبرالٹر پر پڑاؤڈالادوسری طرف سپین کے عیسائی بادشاہ کنگ روڑرک کی ایک لاکھ سے زیادہ فوج مد مقابل تھی یہ جگہ آج بھی اس جزیرے پر راک آف جبرالٹر کے نام سے محفوظ ہے۔

ہسپانیہ پر حملہ آور ہونے سے پہلے طارق بن زیاد نے اپنی تمام کشتیوں کو آگ لگا دی اور اس موقع پر اپنے فوجیوں سے وہ تاریخی خطاب کیا جس کی بازگشت ہمیں آج بھی تاریخ کے گنبدوں سے سنائی دیتی ہے۔ اس دلیر سپہ سالار نے کہا کہ ”ہمارے آگے دشمن کی فوج صف آرا ہے اور پیچھے سمندر ہے اب ہمیں صرف اپنے مقصد کے حصول کے لئے اس وقت تک لڑنا ہے جب تک شہادت یا فتح ہمارا مقدر نہ بن جائے ہمارے پاس واپسی کا اب کوئی رستہ نہیں ہے“۔ طارق بن زیاد کی فوج کی تعداد (7) سات ہزار کے قریب تھی لیکن وہ اس بہادری اور جرأت سے لڑے کہ انہوں نے کنگ روڈرک کی ایک لاکھ سے زیادہ مسلح فوج کے قدم اکھاڑ دیئے اور سپین کو فتح کر لیا یہ 28 رمضان کا دن تھا۔سپین میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے پر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیادکو پیش قدمی کے لئے مزید فوجی دستے بھجوائے جن کی تعداد 6 ہزار بتائی جاتی ہے۔ سپین کو فتح کرنے کے بعد اسے اندلس کے نام سے بھی پہچانا جانے لگا مسلمانوں نے یہاں آرٹ، کلچر اور سائنس کے شعبے میں بہت شاندار کام کئے جو آج بھی یورپ میں مسلمانوں کے کارناموں کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ سپین میں مسلمانوں کے ساڑھے سات سو برس کے اقتدار کی نشانیاں ہمیں اب بھی بہت کچھ سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ سپین کی فتح کے سات برس بعد خلیفہ وقت نے طارق بن زیاد کو دمشق بلایا موسیٰ بن نصیر بھی اُن کے ہمراہ تھے جو تمام فتوحات کا کریڈٹ خود لینا چاہتے تھے لیکن حقیقت کھلنے پر انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی مگر طارق بن زیادکو بھی ان کے تمام اعزازات سے محروم کر دیا گیا اور اُن کی عمر کا آخری حصہ بہت کسمپرسی میں گزرا اور وہ 720ء میں انتقال کر گئے۔سپین کے تاریخی حوالے اپنی جگہ لیکن جبرالٹر (جبل الطارق) کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز تک یہ جزیرہ سپین کے کنٹرول میں تھا لیکن 1704 میں یہ برطانیہ کے قبضے میں آ گیا اور دوسری جنگ عظیم میں یہ جزیرہ برطانوی رائل نیوی کے اہم مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ سپین آج بھی جبرالٹر پر اپنا حق جتاتا ہے اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد جبرالٹر کا مستقبل کئی طرح کے خدشات کا شکار ہو گیا ہے۔ ان دنوں اس پہاڑی جزیرے کی 34 ہزار آبادی میں 78 فیصد عیسائی اور تقریباً 4 فیصد مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور ہمیں بل کھاتی تنگ سڑکوں کے ذریعے پہاڑی رستوں کے بارے میں بتاتا ہوا ایک غار کے دھانے پر لے گیا یہ جبرالٹر کا ایک تاریخی اور قابل دید مقام ہے اسےMICHEAL CAVE) (Saint کہتے ہیں۔ جب ہم ٹکٹ لے کر اس غار میں داخل ہوئے تو یوں لگا کہ ایک جہانِ حیرت ہمارا منتظر ہے، ٹھنڈک کے ایک عجیب و غریب احساس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، غار کی بلندی سے پانی رِس رہا تھا اور چاروں طرف سے ایک خوابناک روشنی ہر آنے والے کا استقبال کر رہی تھی، وقفے وقفے سے یہ روشنی کبھی ہلکی گلابی کبھی سفید کبھی ہلکی نیلی اور کبھی ہلکی سبز رنگت میں تبدیل ہو رہی تھی یوں لگ رہا تھا کہ ہم کسی خواب کی دنیا میں آ گئے ہیں۔

نسیم احمد اور شہزاد خان اپنے فون سے اس ماحول کی ویڈیو بنا رہے تھے اور بہت سے سیاح بھی غار کے پتھروں سے رسنے والے پانی کے ساتھ تصویریں بنانے میں مصروف تھے۔ یہ غار صدیوں پرانا ہے اور اسے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہسپتال کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا۔ اس غار کے بارے میں ایک طویل مدت تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ سمندر کے اندر افریقہ تک پہنچنے کا کوئی جادوئی راستہ ہے۔ ہم اس رنگ برنگے پتھریلے غار کے سحر سے نکل کر باہر آئے تو سرمئی اور سفید بادلوں کی ٹولیاں سمندر سے ہم آغوش ہو رہی تھیں اور تیز ساحلی ہوا کے ساتھ رم جھم کی وجہ سے ٹھنڈک میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہماری اگلی منزل ’ٹاپ آف دی راک‘ تھی جہاں سے کیبل کار کے ذریعے ہمیں بحر اوقیانوس اور جبرالٹر کے ملاپ کا نظارہ کرنا تھالیکن ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ آج تیز ہواؤں اور موسم کی خرابی کے باعث کیبل کار سروس بند ہے چنانچہ ڈرائیور نے ٹیکسی کا رخ گریٹ سیج ٹنلز (The great seige Tunneuls) کی طرف موڑ دیایہ سرنگیں اٹھارویں صدی کے آخر میں اس وقت بنائی گئیں جب برطانیہ کو فرانس اور سپین کے خلاف اس جزیرے کے دفاع کی ضرورت پیش آئی۔ اِن سرنگوں میں ورلڈ وار ٹنلز بھی ہیں جن میں جگہ جگہ روشندان اور مورچے بنے ہوئے ہیں جہاں سے دشمن کو اسلحے اور بارود کا نشانہ بنایاجا سکتا تھا۔ پہاڑوں کے اندر بنائی گئی یہ سرنگیں انسانی محنت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور خاص طور پر اُس زمانے میں ان سرنگوں کا بنایا جانا جب موجودہ دورجیسی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں واقعی حیرت انگیز ہے ان سرنگوں کے مورچوں میں اب بھی باوردی مجسمے رکھے گئے ہیں جن کے ساتھ معلوماتی سائن بورڈ بھی آویزاں ہیں۔ ان سرنگوں کے داخلی گیٹ کے ساتھ ہی سیاحوں کے بیٹھنے اور تصاویر بنانے کے لئے جگہ مختص ہے جہاں سے ماربیلا اور اس سے ملحقہ مضافاتی علاقے دور دور تک دکھائی دیتے ہیں بلکہ اس بلند مقام جبرالٹر کے ہوائی اڈے کے رن وے کو دیکھنا بھی خوشگوار تجربہ تھا۔ یہیں سے ہمیں ایک قلعہ بھی دکھائی دیا جس کو ہم نے واپسی کے رستے پر رک کر دیکھا جس کی تفصیل اس سفر کی داستان کے آخر میں آئے گی۔ سرنگوں سے نکل کر ہمارا رخ اپر ایپس ڈین (UPPER APES DEN) کی طرف تھا یہ جزیرے کی وہ بلند و بالا جگہ ہے جہاں تقریباً 3 سو جنگلی بندر آزادانہ گھومتے اور سیاحوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے ہیں۔ یہ پورے یورپ کا وہ واحد تفریحی مقام ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں بھورے بندروں کو آزاد چھوڑا گیا ہے یہ بندر اتنے سمجھدار یا چالاک ہیں کہ سیاحوں کے ساتھ تصویر بنوانے کے لئے باقاعدہ پوز بناتے اور تصویر بنائے جانے تک ساکت رہتے ہیں اور تصویر بن جانے کے بعد سیاحوں سے کھانے کے لئے کسی پھل یا مونگ پھلی کی توقع کرتے ہیں اچھی بات یہ ہے کہ بند رکسی سیاح پر حملہ آور نہیں ہوتے اگر آپ کچھ کھا رہے ہوں تو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں چھینا جھپٹی نہیں کرتے۔ ان بندروں کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب تک اس جزیرے پر موجود رہیں گے یہاں پر برطانوی راج قائم رہے گا اسی لئے ونسٹن چرچل نے اپنے زمانے میں ان کی دیکھ بھال کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ یہ بندر بلند پہاڑی رستے کے دونوں طرف چٹانوں پر بیٹھے سیاحوں کی راہ تکتے رہتے ہیں یہ بندر رنگ برنگے سیاحوں کو دیکھ کر اس قدر حیران نہیں ہوتے جس قدر سیاح انہیں بلندی پر دیکھ کر حیران اور خوش ہوتے ہیں، جبرالٹر کے سکّوں پر بھی اِن بندروں کی تصاویر کندہ ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق کچھ دیر بعد تیز بارش کا امکان ہے تو ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔

ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے ہم نے ڈرائیور سے فرمائش کی کہ وہ اس بلند پہاڑی مقام پر ہم تینوں دوستوں کی کچھ تصاویر بنا دے تو اس نے خوشی خوشی شہزاد خان کے موبائل فون کیمرے سے ہم سب کے لئے گروپ فوٹو بنائے اور نسیم احمد نے ویڈیو بنا کر اس تفریحی مقام کی یادوں کو محفوظ کر لیا۔ واپسی کا پہاڑی رستہ بل کھاتی ڈھلوان سے ہمیں اس قلعے کی طرف لے جا رہا تھا جس کی فصیلوں اور چھت کو ہم نے بلندی سے دیکھا تھا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم اس قلعے کے اندر نہیں جا سکے۔ یہ وہ واحد نشانی ہے جو مسلمانوں کی اس جزیرے پر حکمرانی کی یادگار ہے اس قلعے کو گیارھویں صدی میں تعمیر کیا گیا یہ قلعہ موریش کاسل (Moorish Castle) کہلاتا ہے جس کی فصیلیں اور ٹاورز اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں اب اس قلعے کے مرکزی دروازے اور ٹاورز پر برطانوی پرچم لہرارہا تھا اور ان دنوں اس پتھریلے اور مستحکم قلعے کو عارضی جیل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے سپین کو فتح کرنے کے بعد جبرالٹر میں کئی مساجد تعمیر کروائیں، غسل کے لئے جگہ جگہ حمام بنوائے بلکہ اس جزیرے کو مدینہ الفتح یعنی ”سٹی آف وکٹری“ قرار دیا مگر اب اس موریش کاسل کے علاوہ مسلمانوں کی کوئی نشانی اور یادگار موجود نہیں بلکہ 1997 میں جب سعودی شاہ فہد نے اس جزیرے پر مسجد ابراہیم کی تعمیر کے لئے 5ملین پونڈ کی رقم مختص کی تو مقامی عیسائی آبادی نے اس وسیع و عریض مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی لیکن ضابطے اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کو اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دینا پڑی۔ ہمارا خیال تھا کہ اس جزیرے پر طارق بن زیاد کی کوئی یادگار یا نشانی موجود ہو گی لیکن ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔برطانوی حکومت نے اس جزیرے پر کنٹرول حاصل کرنیکے بعد پانچ پونڈ کا ایک سبز نوٹ جاری کیا جس کے ایک طرف ملکہ برطانیہ اور دوسری طرف طارق بن زیاد کی تصویر ہے۔ہسپانیہ سے مسلمانوں کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد ا ن کی ایک ایک یادگار اور نشانی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جبل الطارق (یعنی طارق کا پہاڑ) کا نام بھی جبرالٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب طاقتور غالب آتا ہے تو وہ شکست کھانے والوں کے نشان مٹا کر وہاں اپنے نقش بناتا ہے بہرحال ہمارا واپسی کا سفر ڈھلوان کی طرف تھا۔ جبرالٹر میں صرف 29 کلومیٹر سڑک ہے جو بل کھاتی ہوئی اس پہاڑی جزیرے کی چوٹی تک جاتی ہے اور اس سڑک کے دونوں طرف گھنے درخت اور پیڑ ہیں جو تین سو سے زیادہ اقسام کے پرندوں کی آماجگاہ ہیں ایسے ہزاروں پرندے جو مختلف موسموں میں افریقہ سے یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں وہ بھی جس جزیرے پر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ سنگا پور، ہانگ کانگ، مکاؤ اور مناکو کے بعد جبرالٹر پانچواں بڑا سب سے زیادہ آبادی والا جزیرہ ہے (یعنی رقبے اور آبادی کے تناسب سے)۔ اپنے شاندار ساحلوں، موسم اور قدرتی رعنائیوں کی وجہ سے جبرالٹر سیاحوں کے لئے بہت پرکشش جزیرہ ہے یہاں جیمز بانڈ کی دو فلوں کی شوٹنگ ہو چکی ہے، شہزادی ڈیانا اور پرنس چارلس بھی شادی کے بعد ہنی مون کے لئے اس جزیرے پر آئے تھے اس جزیرے میں جگہ جگہ سرنگیں بنائی گئی ہیں جن کی طوالت تقریباً 34 میل ہے۔ ان سرنگوں میں ٹیلی فون ایکس چینج، پاور جنریٹر سٹیشن، واٹر فلٹر پلانٹ، ورکشاپس اور ہسپتال قائم ہیں۔ اس جزیرے میں رہنے والوں کو تعلیم اور علاج معالجے کی مفت سہولت میسر ہے۔ جبرالٹر کے لوگ ملنسار اور سیاحوں کے لئے خوشگوار مزاج رکھنے والے ہیں۔ ویسے تو جبرالٹر میں دیکھنے کو اور بہت کچھ تھا لیکن ہم وقت کی قلت اور موسم کی خرابی کے باعث بہت سی جگہوں پر نہ جا سکے ویسے بھی میں، نسیم احمد اور شہزاد خان جب بھی کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہاں کی ہر شے کو جاننے یا دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرتے تاکہ دوبارہ بھی وہاں آنے کا جواز موجود رہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے واپس آ کر ہمیں وہیں اتار دیا جہاں سے اس نے ہمیں لیا، ہمارے سامنے جبرالٹر کی ہائی سٹریٹ تھی جہاں سے ہم نے کچھ سونیئرز اور ٹی شرٹس خریدیں۔ نسیم احمدنے پوچھا کہ آپ کو اس جزیرے کی سب سے اچھی چیز کونسی لگی؟ میں نے اور شہزاد خان نے بیک زبان ہو کر کہا کہ جبرالٹر کی بلند ترین پہاڑی چوٹی سے بحراوقیانوس اور بحیرہ روم کے نیلے پانیوں کا نظارہ سب سے دلچسپ تھا جب ہمارے ایک طرف مراکو کے شہر طنجیرکے دھندلے آثار دکھائی دے رہے تھے اور دوسری طرف سپین کے شہر ماربیلا کے ساحل اور ساحلی آبادیاں نظر آ رہی تھیں، ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ مشرق کی طرف بحراوقیانوس کی تاحدِ نظر وسعتوں میں طارق بن زیاد کے بحرے بیڑے کہیں گم ہو گئے ہیں جو ذرا سی دھند چھٹنے پر پھر سے نمودار ہوں گے۔ نسیم احمد نے جبرالٹر ایئرپورٹ کو کراس کرتی ہوئی سڑک کو عبور کرتے ہوئے فرمائش کی کہ اپنی غزل کا وہ مقطع تو سنا دو جس کی وجہ سے ہم یہاں تک آئے ہیں میں نے اداس دل کے ساتھ اپنا یہ شعر پڑھا

چلو کہ فیضانؔ کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر

کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا یہ طے ہوا تھا

ہماری کوچ امیگریشن کاونٹر تک پہنچ چکی تھی اور ہم نے مڑ کر جبل الطارق کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور خدا حافظ کہہ کر سرحد عبور کر لی۔٭٭٭