Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
764

دہلی انتخابات میں بی جےپی کو عبرتناک شکست

نئی دہلی میں 70 رکنی دہلی اسمبلی کے لیے پولنگ ختم ہو گئی ہے، ایگزٹ پولز کے نتائج اروند کیجری وال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی کی حکومت کی واپسی کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ ان پولز کے مطابق، عام آدمی پارٹی کو مجموعی طور پر 50-61 نشستیں ملتی نظر آرہی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 10-26 اور کانگریس کو 0-2 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ سال 2015 کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو 67 اور بی جے پی کو تین سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس کا کھاتا بھی نہیں کھلا تھا۔ حکومت سازی کے لیے 36 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے مائی ایکسس پول کے مطابق، ”عام آدمی پارٹی کو 59-68 اور بی جے پی کو 2-11 سیٹیں؛ جب کہ کانگریس کو ایک بھی سیٹ ملتی نہیں دکھائی دیتی”۔

سی ووٹر اے بی پی نیوز کے مطابق، عام آدمی پارٹی کو 59-63، بی جے پی کو 5-19 اور کانگریس کو 4 سیٹیں مل رہی ہیں۔ ریپبلک ٹی وی کے ایگزٹ پول کے مطابق، عام آدمی پارٹی کو 48-61، بی جے پی کو 9-21 اور کانگریس کو ایک سیٹ مل سکتی ہے۔ ٹائمس نائو کے مطابق، عام آدمی پارٹی کو 44 اور بی جے پی کو 26 نشستیں مل سکتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے پانچ برسوں کے ترقیاتی کاموں کو اپنا انتخابی ایجنڈہ بنایا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے تعلیم، صحت، بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں کافی کام کیا ہے۔ اس نے رائے دہندگان سے کہا تھا کہ اگر ان کو محسوس ہو کہ اس نے کام کیے ہیں تو اس کو ووٹ دیں ورنہ نہ دیں۔

کیجری وال حکومت نے بجلی کے ایک میٹر پر دو سو یونٹ تک کی بجلی مفت کر دی ہے، جس کی وجہ سے متوسط طبقے کے لاکھوں گھروں میں بجلی کا بل ہی نہیں آتا۔ حکومت کے اس قدم نے عوام کو بہت متاثر کیا اور بہت سے روایتی بی جے پی ووٹروں نے بھی عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینے کی بات کہی تھی۔ جبکہ بی جے پی نے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری خواتین کے دھرنے کو انتخابی ایشو بنایا اور دھرنے کے خلاف بے بنیاد الزامات عاید کیے گئے۔

بی جے پی کے سابق صدر اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ ”وہ بی جے پی کے انتخابی نشان کا بٹن اس قدر زور سے دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ تک جائے”۔ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے کہا کہ ”شاہین باغ میں پاکستان نواز عناصر دھرنے پر بیٹھے ہیں اور وہاں محمد علی جناح والی آزادی اور ملک کو توڑنے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں”۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے یہاں تک الزام لگا دیا کہ مبینہ طور پر ”شاہین باغ میں خود کش بمباروں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے”۔ بی جے پی ایم پی پرویش ورما نے الزام لگایا کہ ”شاہین باغ کے لوگ ہندووں کے گھروں پر حملہ کریں گے اور ان کی بہن بیٹیوں کا ریپ کریں گے”۔ بی جے پی کے ایک امیدوار کپل مشرا نے کہا کہ”8 فروری کو دہلی میں ہندوستان اور پاکستان کا مقابلہ ہوگا”۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ”بولی کی جگہ پر گولی” کی بات کہی اور یہ الزام لگایا کہ ”اروند کیجری وال شاہین باغ میں پاکستانی دہشت گردوں کو بریانی کھلا رہے ہیں”۔ انتخابی تقاریر کے دوران شاہین باغ کے خلاف خوب بیانات سامنے آ چکے ہیں، تاکہ اس کی بنیاد پر ہندو ووٹوں کو متحد کیا جا سکے۔ لیکن، کہا جاتا ہے کہ شاید یہ بیانات رائے دہندگان کو پسند نہیں آئے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، دہلی میں 57 فیصد ووٹ پڑے۔ لیکن، مسلم اکثریتی علاقوں سیلم پور اور مٹیا محل میں جہاں سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران تشدد بھڑکا تھا، سب سے زیادہ ووٹ پڑے۔ دیگر مسلم اکثریتی علاقوں جامعہ نگر، مصطفیٰ آباد اور اوکھلا کے شاہین باغ میں پولنگ بوتھوں کے باہر بڑی بڑی قطاریں دیکھی گئیں اور بہت سے بوتھوں پر تین تین گھنٹے کے بعد لوگوں کا نمبر آیا۔

ایگزٹ پولز میں عام آدمی پارٹی کو اکثریت دکھائے جانے کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے شام کے وقت بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کی ایک میٹنگ طلب کی جس میں ایگزٹ پولز کے نتائج پر غور کیا گیا۔ یاد رہے کہ انتخابات کے دوران بی جے پی کے 240 ارکان پارلیمان، 70 مرکزی وزرا اور متعدد وزرائے اعلیٰ نے کئی کئی دنوں تک انتخابی مہم چلائی اور راتوں میں رائے دہندگان کے گھروں میں جا جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ کارنر میٹنگس بھی کی گئیں۔ خو دامت شاہ نے لوگوں کے دروازوں پر جا کر پرچے بانٹے اور لوگوں سے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔

دریں اثنا، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کی سیکورٹی کے سلسلے میں اپنی پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی ایک میٹنگ طلب کی۔ بی جے پی نے ایگزٹ پولز کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کو 48 نشستیں ملیں گی۔ اس بیان کے بعد، بتایا جاتا ہے کہ عام آدمی پارٹی میں ووٹنگ مشینوں کے تحفظ کے سلسلے میں فکرمندی بڑھ گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں