Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
468

باپ کی برسی پر ایک بیٹی کے جذبات

ایسے تو دنیا کی ہر بیٹی اپنے باپ پر فخر ہی کرتی ہے کیونکہ حقیقت میں دنیا میں باپ سے بہترین کوئی چھت نہیں ہوتی، مگر میرے ابو سب سے الگ تھے انہوں نے اکیلے ہی ہماری تربیت کی، تعلیم دلوائی گاؤں سے شہر میں شفٹ ہوئے تو ہمیں دنیا کی ہر آسائش دی جو وہ دے سکتے تھے آج انکی برسی ہے، وہ سات جلائی کو مری میں روزے گزار کر گاؤں جارہے تھے کہ انکو ہارٹ اٹیک ہوگیا، یوں تو وہ ایک پل کیلئے بھی میرے دل سے کبھی نہیں نکلے مگر برسی کے دن شدت سے یاد آتے ہیں انکا وہ کسی غلطی پر غصہ ہونا اور پھر گھر سے باہر نکل جانا کہ ہمارے آنسو نہ دیکھیں، خود کو مضبوط شو کرانا مگر رات کو واپس آکر کھانا چیک کرنا کہ ہم نے کھایا تھا کہ نہیں پھر ہمارے سرہانے کھڑے رہ کر ہمیں سوتا دیکھتے رہنا صبح جب آفس کیلئے تیار ہوتے تو چائے کیلئے آواز نہیں لگاتے تھے اس دن ہم چُپ کر کے جب چائے لے کر جاتے تو پیار سے گلے لگا لیتے کہ میرا بہادر بیٹا، چائے اچھی تو نہیں تھی مگر میرے بیٹے نے جو بنائی تو پی لی، کبھی ہم بہنوں کو بیٹی کہہ کر نہیں پکارتے تھے ، ہمیشہ میرا بیٹا کہتے تھے، ہمیں گلاس تک پکڑنے کا طریقہ سکھاتے تھے کہ میرا بیٹا جب گلاس کسی کو تھمانے لگو تو نیچے سے پکڑا کرو تاکہ اگلے بندے کے ہاتھ رکھنے کی جگہ خالی ہو بہت چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات سکھاتے تھے، کبھی کبھی بھائی ہنس کر کہتے ابو کو تو حکم چلانے کی اتنی عادت ہے ہمارے بچے بھی ہوگئے ہیں تو بھی سکھاتے رہتے ہیں ایسا کرو تو ویسا کرو ایک چھوٹے سے شہر کے ایک بہت بڑے انسان تھے انکی اپنی الگ شخصیت تھی کسی کے گھر جاتے تو ہمیشہ ڈرائیور کو کہتے گاڑی سیدھی پارک کر کے آنا تاکہ ہم نکلیں تو سیدھا روڈ پر چڑھ جائیں بندہ اچھا نہیں لگتا جب کوئی سی آف کرنے آتا ہے تو گاڑی کبھی ریورس ہورہی ہو کبھی گیٹ بچا رہی ہو وہ بار بار اللہ حافظ بولیں ایسی بے شمار باتیں جو ذہن میں نقش ہیں جو دنیا کا کوئی ٹیچر بھی نہیں سکھا سکتا۔

کبھی مہمان آتے تو ہمیں بناتے فلاں بندہ چار دن کیلئے آرہا ہے پہلے دن ایک ساتھ بہت سی ڈشیں مت بنانا ایک دو بنانا کیونکہ اکثر لوگ پہلے دن سارے کھانے بنا دینتے ہیں دوسرے دن بات دال سبزی پر آجاتی ہے تو مہمان دل میں سوچتا ہے کہ شائد تنگ آگئے ہیں اور خود کو الگ احسا س ہوتا رہتا ہے اس لئے جو رہنے کیلئے آئے اسکے لئے بےشک پہلے دن ایک ڈش بنا لو مگر آخری دن تک اسکی وہی خاطر کرو جو پہلے دن مہمان کی ہوتی ہے گھر میں ہمیشہ انگلش کا ایک اخبار اور اردو کے دو اخبار لگواتے تھے جب آفس سے آتے یا فری بیٹھتے کبھی اخبار یا کتاب کے بغیر نہیں بیٹھتے تھے، کہتے تھے کچن میں تو جانے سے رہا اس لیے گھر بیٹھنے کیلئے کچھ نہ کچھ ہونا چاہے وہ گاؤں میں جاتے تو گاؤں کے ماحول میں رنگ جاتے تھے جب شہر آتے تو شہر کے ماحول میں کوئی مان ہی نہیں سکتا تھا گھوڑ سواری کرتے تو بھی سب سے الگ پیدل چلتے تو میلوں ہاتھ میں بندوق سفید لٹھے کے کپڑے اور اکیلے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پیدل چل کر جاتے تھے گاڑی میں ہوتے تو ہمیشہ بیک سیٹ پر بیٹھتے تھے آگے خواہ کوئی ملازم بھی ہو اسکو بٹھا دیتے تھے، جہاز پر کراچی جاتے تو وی آئی پی سفر کرتے ایسا لگتا تھا جیسے کوئی لبرل شخص ہے انکے جانے کے بعد ہماری تو دنیا ہی اُجڑ گئی تھی کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے غلط قدم بھی اٹھے جب رہبر ہی چلے جائیں تو منزل نظر آتی ہے نہ راستے ملتے ہیں دنیا والوں کو غرض نہیں ہوتی ہمارے نقصان ہوں یا ہم غلط کریں کہ ٹھیک مگر باپ اللہ تعالی کا دیا گیا ایک عظیم تحفہ ہے میرے ابو عظیم شخص تھے اللہ انکے در جات بلند کرے اور انکو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین!