290

محلے کا مولوی۔

غریب  خاندان یا نچلی ذات  کا وہ بچہ جو سکول نہیں پڑھتا اسے ان درسوں میں بھیج دیا جاتا ھے جو فرقوں میں نفرت  پھیلا کر چندہ اکٹھا کرنے کے لیئے  بنائے جاتے ہیں۔ ایسے  درسوں میں گٹھن زدہ ماحول ھوتا ھے اور مولوی بچوں کو غلاموں کی طرح رکھتے  ہیں۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور اکثر ان سے فحش حرکات بھی کی جاتیں ہیں۔ یہ بچے  اتنے  ڈرے ہوئے ھوتے ہیں کہ کسی سے اس بات کی شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ اسی حالت  میں یہ بچے  جوان ہو جاتے ہیں اور جس فرقے کا درس ہوتا ھے اسکی نفرت  بھری عینک پہن کر نام نہاد عالم بن جاتے ہیں۔

یہ عالم اب  دین کا بیڑا غرق کرنے کے لیئے  تیار ہوتے ہیں اور کسی گلی محلے  کی مسجد سنبھال لیتے  ہیں۔ گلی محلے  کی مسجد میں امام سلیکٹ کرنے کے لیئے  ایک سلیکشن کمیٹی ہوتی ھے۔ اس کمیٹی کے ممبران اکثر جاھل، ان پڑھ، انگوٹھا چھاپ  اور معاشرے سے فارغ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکا اور کوئی کام نہیں ھوتا اور یہ لوگ ایک اچھا کام کرتے ہیں جو پانچ وقت  کی مسجد میں با جماعت  نماز  پڑھتے  ہیں، یہ علیحدہ بات ھے کہ انہیں نماز پڑھنا کتنی آتی ہے مگر پڑھتے  ضرور ہیں۔ ان لوگوں میں فرقہ ورانہ نفرت  بہت  زیادہ ہوتی ھے اور بڑے غرور اور تکبر سے اپنے  فرقے کے علاوہ باقی فرقوں کو کافر کہتے  ہیں۔

یہ نام نہاد کمیٹی اپنی گلی محلے  کی مسجد میں اماموں کے انٹرویو کرتی ہے۔ سلیکشن کا معیار مولوی کی آواز کی لے اور مخالف  فرقے کے خلاف  نفرت  اور مناسب شعروں اور نعروں سے طے ھوتا ھے۔ جو مولوی ان سب چیزوں پر پورا اتڑتا ھے اسے رکھ لیا جاتا ھے۔ اس مولوی کو بخوبی پتا ہوتا ہے کہ جتنا عرصہ اس نے اس مسجد میں رہنا ہے ان انگوٹھا چھاپ سلیکشن کمیٹی کے ممبران کی ٹی سی کرنی ہے۔ شروع شروع میں مولوی ساب کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس مولوی کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی بلکہ اسے ماہانہ گیارہویں کے ختم پر نعتیں پڑھنے پر ویلیں ملتی ہیں اور کسی فوتگی پر جنازہ پڑھانے پر ایک جوڑا کپڑے اور کچھ روپے ملتے  ہیں۔ دونوں عیدوں پر تقریر کرنے پر ویلیں ملتی ہیں اور جمعہ والے دن بھی تقریر کرنے پر کچھ ویلیں مل جاتیں ہیں۔ مولوی کو اصل پیسے  قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر ملتے  ہیں۔

یہ مولوی بچے  بچیوں کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں اور چونکہ یہ خود گھٹن زدہ ماحول میں جنسی زیادتیوں کے بعد پڑھے ہوئے ھوتے ہیں اسلئے یہ یہاں بھی ایسا ماحول بنا کر اپنا ماضی کا بدلہ ان معصوم بچوں سے لینے  کی  کوشش  کرتے ہیں۔ اپنی تقریروں میں مخالف فرقے کے خلاف  زہر  اگلتے  ہیں اور انہیں کافر قرار دیتے ہیں جبکہ سننے والے نعرے لگاتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔

چھ مہینے سال گزرنے کے بعد مولوی کا ہنی مون پڑیڈ ختم ھونا شروع ھو جاتا ھے۔ سلیکشن کمیٹی سے اختلافات  بڑھتے  ہیں تو مولوی کو منہ پرگندی گالیاں دینی شروع کر دی جاتیں ہیں۔ اور آخر میں دھکے  مار کر مولوی کو نکال دیا جاتا ھے۔ اختلافات کے دوران جب مولوی کو اپنا انجام نظر آنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ کسی اور مسجد میں سلیکشن کے لیئے  ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتا ہے اور اچانک یہاں سے دوسری جگہ شفٹ ہو جاتا ھے اور سلیکشن کمیٹی والے دوبارہ انٹرویو کرنا شروع کر دیتے  ہیں اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: left; font: 12.0px ‘Geeza Pro’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Geeza Pro’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px Helvetica}

اپنا تبصرہ بھیجیں