429

کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور

ایک دفعہ ایک گدھ اور ایک شاہین بلند پرواز ہو گئےـ بلندی پر ہوا میں تیرنے لگےـ وہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے تھےـ اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بےنیاز، آسمان سے بےخبر، بس مصروفِ پروازـ دیکھنے والے بڑے حیران ہوۓ کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں، ہم پرواز کیسے ہو گئے؟

شاہین نے گدھ سے کہا “دیکھو اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں”ـ گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا “ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہےـ میرے پَر بھی بلند پروازی کے لئے مجھے ملے” لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھاـ اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیاـ

اس نے شاہین سے کہا “جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی ـمجھے میری منزل پکار رہی ہے”ـ اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مردار پر آ گراـ فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی ـ ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتاـ

انسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہےـ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی ہے خواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو ـ
میاں محمّد صاحبؒ کا ایک مشہور شعر ہے کہ

نیچاں دی اشنائی کولوں پھل کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا،  ہر گچھا زخمایا

(کمینے انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہر گچھا زخمی ہو جاتا ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں