260

نمک نہ چھڑکیں ،مرہم رکھیں۔

پچھلے دنوں کوئٹہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان بہن بھائی کی سڑک پر پڑی خون آلود لاشوں کی تصویر دیکھی تو دل پر لگے گھاؤ پھر سے ہرے ہوگئے اور نظروں کے سامنے تین سال قبل رونما ہونے والا وہ واقعہ گھومنے لگا جب عید کے دن دو ہزارہ نوجوانوں کو اسی طرح ایک بارونق سڑک پر قتل کر دیا گیا تھا، جن کی لاشیں اسی طرح کئی گھنٹے سڑک کنارے پڑی رہیں اور بے حس لوگ نظریں پھیر کر آس پاس سے گزرتے رہے۔

ساتھ ہی پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والا وہ واقعہ بھی یاد آیا جب لوکل بس میں سوار چار ہزارہ خواتین کو درجنوں افراد کے سامنے شناخت کر کے قتل کر دیا گیا، لیکن اس منظر کو دیکھنے والے بھی سب گونگے اور بہرے بنے رہے۔ سنا تھا کہ بدن پر لگنے والے گھاؤ کبھی نہ کبھی بھر ہی جاتے ہیں۔ لیکن دل اور روح پر لگنے والے زخموں کا کیا علاج ! وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر طرف نمک کے بیوپاری کاندھوں پر نمک کی بوریاں اٹھائے پھرتے ہوں لیکن مرحم کی دکانوں پر بڑے بڑے زنگ آلود تالے لگے ہوں! جنوری 2013 کی بات ہے جب کوئٹہ کے علمدار روڑ میں دو خود کش دھماکے کروا کے بے گناہ ہزارہ مردوں، عورتوں اور ننھے بچوں کے قتل کی پہلی “سنچری” بنائی گئی۔ تب چیف آف ساراوان کہلانے والے پیپلز پارٹی کے راہنماء، نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔

علمدار روڑ کے گھر گھر میں ماتم برپا تھا اور ہزاروں مرد، خواتین اور بچے، خون جما دینے والی سردی میں اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ کر انصاف کے لیے دہائی دے رہے تھے۔ کسی نے نواب صاحب کی توجہ ان روتی ہوئی ماؤں اور بلکتے بچوں کی طرف دلائی تو انہوں نے مسخرہ پن کی انتہا کرتے ہوئے کہا کہ”میں ان کے لیے ٹشو پیپر سے بھرا ٹرک بھیج دوں گا تاکہ وہ اپنے آنسو پونچھ سکیں”۔ ساراوان کے چیف، پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبے کے وزیر اعلیٰ کے منہ سے نکلنے والا یہ جملہ زہر میں بجھا ایک ایسا خنجر تھا جس نے نسل کشی اور قتل و غارت سے متاثر ہزارہ قوم کی روحوں تک کو چھلنی کر دیا اور ان کے دلوں پر ایک ایسا گہرا گھاؤ لگایا جس سے آج بھی پہلے دن کی طرح ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔

ایسا ہی ایک زہریلا گھاؤ پیپلز پارٹی کے ایک اور راہنماء آیت اللہ درانی نے بھی لگایا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ” ہزارہ خود ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں تاکہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کرسکیں”، اور جون 2014 میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ایسا ہی ایک زہریلا گھاؤ فرنٹیئر کور کے کسی ریٹائرڈ عہدیدار نے بھی لگایا تھا جب انہوں نے ہیومن رائٹس واچ سے کہا تھا کہ” ہزارہ برادری اپنی حالتِ زار کو ’مبالغے‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ ان کو کسی دوسرے ملک میں پناہ مل جائے اور وہ ایران سے بھی مالی اور سیاسی امداد حاصل کر سکیں”۔ اگر پیپلز پارٹی کے ان دونوں راہنماؤں اور عوام کی جانوں کی “حفاظت” پر مامور اس “نامعلوم” عہدیدار کے دلوں میں ہزارہ نسل کشی کا ذرا سا بھی ملال ہوتا یا ان میں ذرہ برابر بھی انسانیت ہوتی تو وہ تسلی کے دو میٹھے بول بول کر ان روتے ہوؤں کے آنسو پونچھ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکنے کو ترجیح دی! ہزارہ قوم کا قتل عام ہوتا رہا، ان کے خون سے سڑکیں اور گلیاں لال ہوتی رہیں لیکن ان کے ہمسائے دم سادھے بیٹھے رہے۔ بہت ہوا تو کسی نے ایک چھوٹا سا اخباری بیان داغ دیا اور بس۔ کسی نے ان کے قتل عام کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی زحمت نہیں کی! روز ان کے سامنے بے گناہ لوگوں کی لاشیں گرتی رہیں اور بم دھماکوں میں معصوم لوگوں کے چیتھڑے اڑتے رہے لیکن وہ اس بات کا فیصلہ تک نہ کر سکے کہ کیا قتل ہونے والے اس قابل ہیں کہ ان کے سوگ میں کچھ گھنٹوں کے لیے ہی سہی، کاروبار بند رکھا جائے؟۔

اسلام کے زریں اصولوں اور قبائلی روایات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عوامی نمائندے تو اتنے کٹھور اور سنگدل نکلے کہ انہوں نے کبھی اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ اس منظم ہزارہ نسل کشی کے خلاف اسمبلیوں میں آواز بلند کریں۔ ہاں ان کی یہ مہربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی کہ انہوں نے اسمبلی کے اجلاسوں میں مقتولین کے ایصال ثواب کے لیے ایک یا دو بار فاتحہ ضرور پڑھی جبکہ ایک آدھ بار اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ ایسے میں پاکستان کے چند گنتی کے صحافیوں اور سوشل میڈیا بلاگرز کے علاوہ سندھ اور پنجاب کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ان تنظیموں کا دم غنیمت تھا جنہوں نے محض انسانی بنیادوں پراس قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس لیے جب پچھلے دنوں کوئٹہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان بہن بھائی کی سڑک پر پڑی خون آلود لاشوں کا منظر دیکھا تو دل پر لگے زخم پھر سے تازہ ہوگئے۔ لیکن اس بار یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس غیر انسانی واقعے کے خلاف اپنی نفرت کا بھر پور اظہار کیا اور طاقتور سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی بھرپور مذمت کی بلکہ اس کے خلاف مہم بھی چلائی۔ اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجروح دلوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کا کام کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی دہشت گردوں کے بعض ہمدرد اس واقعے کو غلط رنگ دیتے اور اس کے لیے مختلف تاویلیں گھڑتے نظر آئے۔

کسی نے فرقہ وارانہ لٹریچر کو اس قتل عام کا شاخسانہ قرار دے کر بالواسطہ دہشت گردوں کے عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تو کسی نے شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو اس واقعہ کی وجہ قرار دیا۔ ایسے لوگوں سے ایک سیدھا سادہ سوال ہے کہ کیا وہ ایک بھی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں جس سے ثابت ہو کہ کسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ لٹریچر کی چھپائی میں کسی ہزارہ کا ہاتھ ہے؟ یا شام میں جاری خانہ جنگی میں آج تک پاکستان بالخصوص بلوچستان سے ایک بھی ہزارہ نے شرکت کی ہو؟ یا پاکستان میں ہونے والا دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ جس میں کوئی ہزارہ ملوث پایا گیا ہو؟ لہٰذا جھوٹی تاویلیں گھڑ کر معصوم لوگوں کی نسل کشی پر پردہ ڈالنے والے افراد سے دست بستہ عرض ہے کہ اگر وہ بے گناہ اور نہتے مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو بے شک نہ اٹھائیں، اگر وہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نالائقی اور مجرمانہ غفلت پر بات نہیں کر سکتے تو بے شک نہ کریں، اگر وہ اپنی فرقہ وارانہ اور گروہی وابستگی کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کے خلاف لب کشائی نہیں کر سکتے تو بھلے نہ کریں، لیکن کم از کم معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد جواز فراہم کر کے ان کے زخموں پر نمک پاشی بھی نہ کریں۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ اب دہشت گردی کسی خاص قوم، قبیلے یا مسلک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسی آگ بن چکی ہے جس پر اگر مل جل کر قابو نہیں پایا گیا تو اس کے شعلوں سے کوئی بھی گھر محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے آئیں مل کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرحم رکھیں۔

تعارف : حسن رضا چنگیزی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے اور مکالمہ ڈاٹ کام میں لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں