Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
305

کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اسلامی ذہنیت والا ادارہ ہے؟ ایک مغالطہ۔

یہ فوج بڑی ڈاہڈی چیز ہے، اس میں جانے کے بعد بندہ صرف اسی کا ہوجاتا ہے، مذہب، مسلک، زبان، علاقہ، صوبہ ۔۔۔۔ ہر چیز بھول جاتا ہے۔یہ جملہ بریگیڈئر شہید ٹی ایم کے خالہ زاد بھائی جو ایک اچھے شاعر اور اُردو کے پروفیسر ہیں، نے ایک بار پاک ٹی ہاؤس میں رانا اظہر کمال کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا۔

اس بات کا تذکرہ رانا صاحب نے اپنے حال ہی میں پبلش ہوۓ ایک مضمون میں کیا۔ یہ چھوٹا سا جملہ فوج جیسے ادارے کی ذہنیت، ماہیّت اور اس کے ڈسپلن کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ باوجود اس کے کہ پاک فوج کے اندر سیاسی عزائم سے لے کر رئیل اسٹیٹ اور بینکنگ تک سو خرابیاں ہیں، مگر جب کوئی عام نوجوان اس کا حصہ بنتا ہے، اسی لمحے اس کے اندر سے مذہب ، مسلک، ذات، برادری اور صوبائیت کا زہر نکالنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا روبوٹ بن جاتا ہے جس کی وفاداری، محب اور جاں سپاری صرف اور صرف اپنے ادارے کے لیے رہ جاتی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ فوج بطور ادارہ ایک مکمل لبرل اور سیکولر حیثیت رکھتا ہے، اس کے لیے اپنے ادارے کا استحکام سب سے پہلے آتا ہے، باقی ہر چیز کا درجہ ثانوی ہے۔ اس لیے یہ ایک صرف مغالطہ ہے کہ یہ ایک اسلامیذہن کا حامل ادارہ اور یہ کہ دنیا میں جب بھی کسی مسلمان پر کوئی زیادتی ہو گی تو محمد بن قاسم کی طرح یہ ادارہ اس کی مدد کو پہنچےگا۔ ذیشان ہاشم کی حال ہی میں شائع ہوئی کتاب ،غربت اور غلامی- خاتمہ کیسے ہو؟ سے ہمیں تفصیل سے اس مغالطہ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صفحہ نمبر 272 میں لکھتے ہیں، کہ پاکستانی فوج کا طرز زندگی ماڈرن ہے، ادارہ جاتی تمدن سیکولر ہے، مذہبی فرقہ وارانہ تقسیم نہیں، فوج کے افسران لبرل ہیں۔

فوج کو بھی پوری طرح احساس ہے کہ اس کے استحکام اور کارکردگی کے لیے صرف لبرل اقتدار ہی رہنما ہو سکتی ہیں، جن کی بنیاد پیشہ وارانہ مہارت، پیداواری صلاحیت اور کسی بھی مذہبی، نسلی، یا لسانی تعصّبات سے بالاتر تمدن پر ہو۔ اس مفہوم کو فوج بطور ادارہ پوری طرح سمجھتی ہے کہ ان کے ادارے کی بقا ہی اسی میں ہے کہ ان کا ادارہ لبرل روشن خیال اقتدار کا دامن تھام کے چلے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فوج ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتی ہےکہ وہ اپنے پیشہ وارانہ عسکری فرائض اور صحت مند ادارہ جاتی تمدن کے قیام میں روشن خیال لبرل اقدار کو ہی عزیز رکھے۔ ذیشان صاحب اپنی کتاب میں ایک سوال پوچھتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ جس کی اندرونی ساخت لبرل ہے وہ آخر کس لیے خارجی سطح پر رجعت پسند سخت گیر اسلامسٹ ذہن رکھنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ آخر کس لیے اس نے ہمیشہ شدت پسند قوتوں کی حمایت کی ہے۔ آخر اس لبرل ادارے نے لبرل اور سیکولر طبقات کی اعانت کیوں نہیں کی۔ ان سے ہمیشہ دور کیونکر رہا ہے۔ یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ جس کا جواب ہمیں تاریخ سے اور ذیشان صاحب کی کتاب سے ملتا ہے۔ آئیے پہلے تاریخ سے جواب ڈھونڈتے ہیں۔1947 میں انڈیا اور پاکستان کو جو فوج ملی وہ برٹش آرمی تھی۔ جو انگریزوں نے اس طریقے سے ڈیزائن کی تھی کہ مذہب، ذات، فقہ، زبان، برادری، وغیرہ ہر فوجی کا ذاتی فعل ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام فوجی جوانوں اور ان کے افسروں کے لیے آرمی کی وفاداری سب سے اہم پیمانہ ہوا کرتا تھا۔

برٹش آرمی اپنی ذات میں ایک سیکولر آرمی تھی جس کا بنیادی مقصد مملکتِ برطانیہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ دونوں ملکوں کی آرمی کو تقسیم کے بعد یہی سوچ ٹرانسفر ہوئی۔ یہاں ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر جب ایک جیسی خصوصیت کی حامل آرمی دونوں ممالک کو ملی، تو کیا وجہ تھی پاکستانی فوجاپنے ادارے کی عزت، ناموس اور اپنے جوانوں کے تحفظ کے لیے یہ ہر حد عبور کر گئی حتئ کہ چار بار مارشل لا لگایا ، جس کی وجہ سے ملکی سالمیت پر حرف بھی آیا۔ یہ مارشل لا کا دور ہی تھا جب پاکستان دو ٹکروں میں تقسیم ہوا۔ اسی طرح غیر ملکی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لیے فوج کو استعمال کرتی رہیں۔ اس کا جواب بھی بہت حد تک تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ ہماری خارجہ پولیسی اور ملک کی سمت قائد اعظم محمد علی جناع نے ملک بننے سے پہلے ہی طے کر لی تھی۔ ایک امریکن صحافی مارگریٹ بورک وائٹ نے پاکستان بننے کے بعد ایک انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو ستمبر 1947 میں کیا گیا۔ مارگریٹ کی کتاب ہالف وے ٹو فریڈم کے چیپٹر نو، کرییٹر اف پاکستان میں اس انٹرویو کی تفصیلات درج ہیں۔ اس انٹرویو میں قائد نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی مدد کرے گا پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالے گا، کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت زیادہ ہے بہ نسبت پاکستان کو امریکہ کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا کا محور ہے، ہمارا محل وقوع دنیا کو مجبور کرے گا کہ وہ آ کر روس کے خلاف لڑے۔ اسی لیے لیاقت علی خان اور جرنل ایوب کا پہلا غیر ملکی دورہ امریکہ کا تھا۔ ذیشان ہاشم نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کو کچھ اس طرح واضح کیا ہے کہ اپنے عزائم کی تکمیل کی خاطر ایک ادارے نے، جو اپنے اندرونی ڈھانچے میں لبرل اقتدار کا پاسدار ہے، خود سے باہر ہمیشہ اِستبدادی قوتوں کی سرپرستی کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ فوج کے عزائم اور رجعت پسندوں کے مقاصد میں یکسانیت ہے۔

اس کے برعکس فوج اور لبرل طبقے کے درمیان تین معاملات پر تصادم پایا جاتا ہے۔ پہلی وجہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جنگوں سے متعلق پالیسیز ہیں۔ جن کے معاملے میں رجعت پسندوں کی سوچ ان کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اسکے برعکس جمہوری قوتیں بقاۓ باہمی کے فارمولے کے تحت پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ اسی جنگی ذہنیت کی وجہ سے پاکستان کے اپنے زیادہ تر ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بخوبی سمجھ لیا کہ وہ باقاعدہ جنگوں سے کشمیر آزاد نہیں کروا سکتی۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ ان کے لیے آسان رستہ مذہبی جنگوں کے نام پر پرائیویٹ گروہ بنا کر اپنے اہداف پورے کرنا ہے۔ اس کام کے لیے اسلامسٹ اور رجعت پسندوں نے نجی جہادی گروہ اور لشکر مہیا کیے۔ جبکہ لبرلز انہیں دہشتگردی قرار دیتے رہے۔ لبرل جمہوری قویتیں ہمیشہ سے عدم مداخلت کی پالیسی کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ یہ فوج اور لبرل طبقوں کے درمیان دوری کا دوسرا سبب ہے۔ تیسری وجہ یہ رہی ہے کہ ملا ملٹری اتحاد ہمیشہ سے جمہوریت سے خائف رہا ہے ۔انہوں نے ملک میں جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اس کے برخلاف لبرل طبقات کی مستقل حمایت جمہوری قوتوں کے ساتھ رہی ہے۔ اس کے باوجود کہ آرمی اسٹبلیشمنٹ نے ہمیشہ اسلامسٹ رجعت پسند نظریہ کو سپورٹ کیا ہے، مگر اپنے ادارے کی جڑوں میں اس زہر کو گھسنے کی اجازت نہیں دی۔ آج بھی پاک فوج اپنے اندر سے ایک لبرل ادارہ ہے۔

افغان جنگ کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر کے اسلامسٹ عالمی خلافت کا خواب دیکھنے لگے۔ انہیں یہ ڈھارس بھی ملی ہوئی تھی کہ ان کے خیال میں ایک ایٹمی طاقت کی حامل فوج ان کی سرپرست تھی۔ تاہم اس دوران میں بھی یہ ادارہ مکمل طور پر ان جہادیوں کی گرفت سے آزاد رہا۔ ان گزارشات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آرمی کا ادارہ ایک انتہائی سخت ڈسپلن کے ساتھ ایک مکمل لبرل اور سیکولر ادارہ ہے۔ “یہ فوج بڑی ڈاہڈی چیز ہے، اس میں جانے کے بعد بندہ صرف اسی کا ہوجاتا ہے، مذہب، مسلک، زبان، علاقہ، صوبہ ۔۔۔۔ ہر چیز بھول جاتا ہے۔”

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں اور مضمون سے مدد لی گئی ہے۔ 
۰ ذیشان ہاشم کی کتاب “غربت اور غلامی ۔ خاتمہ کیسے ہو؟”
 ۰ رانا اظہر کمال صاحب کا مکالمہ کا مضمون پاک فوج میں مسلکی تقسیم؟ ۔۔۔ نا ممکن
 . مارگریٹ بورک وائیٹ کی کتاب ہالف وے ٹو فریڈم
 ‏۰ Pakistan the garrison state by Ishtiaq Ahmed
تعارف : عامر کاکازئی پشاور پختونخواہ میں آئی ٹی کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے اور اردو میں حال ہی میں لکھنا شروع کیا ہے۔ اور مکالمہ ڈاٹ کام پر لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں