Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
399

ڈریگن تکون (dragon’s triangle) یا شیطانی سمندر (devil sea)

شیطانی مثلث جسے اژدہا مثلث (ڈریگن ٹرائی اینگل) بھی کہتے ہیں دراصل برمودہ ٹرائی اینگل کی طرح کا ایک پراسرار مقام ہے جو بحرالکاہل میں جاپان اور فلپائن کے نزدیک واقع ہے۔ یہ جاپان کے ساحلی شہر یوکوہاما ، ماریانا جزائر اور فلپائن کے جزیرے گوام کے درمیان واقع ہے۔ اس سمندر کو جاپانی لوگ مانواومی مانو اومی کہتے ہیں جس کے معنی شیطان کا سمندر ہے۔ جاپانی حکومت نے سرکاری اعلان کے ذریعے لوگوں کو اس علاقے سے دور رہنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ لیکن جاپان سے باہر کی دنیا اسکے بارے میں کم ہی جانتی ہے۔ حلانکہ برمودا تکون کی طرح یہاں بھی جہازوں اور آبدوزوں اور طیاروں کے غائب ہونے کے واقعات بڑی تعداد میں ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ محققین کا خیال ہے یہاں حادثات کی تعداد برمودا تکون سے زیادہ ہے۔ یہاں بھی اغواء ہونے والوں کی اکثریت ماہرین، کپتانوں اور ہوا بازوں کی رہی ہے۔ بلکہ ایک بات جو یہاں زیادہ خطرناک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں غائب ہونے والے جہاز اور آبدوزوں میں ایسے جہاز بھی شامل ہیں جن میں خطرناک ایٹمی مواد بھرا ہوا تھا۔

شیطانی سمندر کا محلِ وقوع

یہ علاقہ بحر الکاہل( pacific  ocean) میں جاپان اور فلپائن کے علاقے میں ہے۔ یہ تکون جاپان کے ساحلی شہر” یوکو ہاما” (yokohama) سے فلپائن کے جزیرے” گوام” (guam) تک بنتی ہے۔ ماریا ناجزائر پر دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔
اس سمندر کو جاپانی لوگ مانواومی (ma-no Umi) کہتے ہیں جسکے معنی شیطان کا سمندر ہے۔ برمودا تکون اور شیطانی سمندر پر تحقیق کرنے  والوں میں ایک نام چارلس برلٹز کا ہے۔ وہ اپنی کتاب “دی ڈریگن ٹرائینگل” میں لکھتے ہیں:
“1952 تا 1954 جاپان نے اپنے پانچ بڑے فوجی جہاز اس علاقے میں کھوئے ہیں۔ افراد کی تعداد 700 سے اوپر ہے۔ اس معمہ کا راز جاننے کے لئے جاپانی حکومت نے ایک جہاز پر سو (100) سے زائد سائنسدانوں کو سوار کیا۔ لیکن۔۔۔ شیطانی سمندر کا معمہ حل کرنے والے خود معمہ بن گئے۔ اسکے بعد جاپان نے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیدیا۔”
دوسری جنگِ عظیم کے دوران بحری لڑائی میں جاپان کو اپنے پانچ طیارہ بردار جہازوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسکے علاوہ 340 طیارے، دس جنگی کشتیاں، نو اسپیڈ بوٹ اور 400 خودکش طیارے بھی اس تکون کے علاقے میں تباہ ہوئے۔ جنگ کے دوران اس نقصان کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب دشمن اتحادیوں کی جانب سے کیا گیا ہوگا۔ لیکن اس بحری دستے کے بارے میں کیا تشریح کی جائیگی جو اسی علاقے میں بغیر کسی حادثے کے غائب ہوگیا۔ حالانکہ ابھی تک وہاں نہ تو امریکی اور نہ ہی برطانوی جہاز پہنچے تھے۔
کم از کم ماہرین کی یہی رائے ہے ۔ کہ یہ تباہی کھلے دشمن کی جانب سے نہیں تھی۔ کیونکہ ایک محقق کے بقول:
“It is extremely doubtful that they are sunken by enemy action because they were in home waters and there were no British or American ships in these waters during the beginning of the war”
ترجمہ: یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ ان جہازوں کو دشمن نے ڈبویا ہو۔ کیونکہ یہ جہاز اپنی سمندری حدود میں تھے اور جنگ کے ابتداء میں وہاں برطانوی یا امریکی جہاز نہیں پہنچے تھے” تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی چھپی ہوئی قوت بھی موجود تھی جو اس جنگ میں امریکہ اور اسکی اتحادیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی تھی۔
برمودا تکون اور شیطانی سمندر میں اتنی زیادہ مماثلت جاننے کے بعد کیا کوئی یہ مان سکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے۔ ہرگز نہیں۔ مشہور چارلس کہتے ہیں۔
The mysterious disappearances in the Bermuda and Dragon Triangles may not be coincidental; since both are so similar; the same phenomenon might be behind the lost ships and planes
ترجمہ:” برمودا اور شیطانی سمندر میں پراسرار طور پر غائب ہوجانا اتفاقی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ دونوں علاقوں میں بلکل مماثلت پائی جارہی ہے۔ جہازوں اور طیاروں کے غائب ہونے میں دونوں جگہ ایک ہی نظریہ کار فرما ہے۔” (دی ڈریگن ٹرائینگل۔ چارلس برلٹز)

یہاں ہونے والے چند مشہور حادثات کے بارے میں جانتے چلیں تاکہ غائب ہونے والوں کی تفصیل معلوم ہوجائے۔
1۔ جاپانی پیٹرول برادر جہاز” کایومارو 5″ ۔ یہ ایک بڑا پیٹرول بردار جہاز تھا۔ جس کا عملہ اکتیس افراد پر مشتمل تھا، جبکہ اس پر پانچ سو ٹن پیٹرول لدا ہوا تھا۔ ان میں 9 سائنسدان بھی تھے۔ اس جہاز کا مرکز سے آخری رابطہ 24 ستمبر 1952 کو ہوا تھا۔ اسلے بعد اسکا کچھ پتہ نہ چل سکا کہاں گیا۔
2۔ جاپانی مال برادر جہاز” کورو شیومارو 2″ :- یہ بھی ایک مال بردارجہاز تھا جس پر 1525 ٹن مال لدا ہوا تھا اسکو بھی اسکے عملے سمیت سمندر نگل گیا۔ اور کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اسکا آخری رابطہ اپریل ا949 کو ہوا تھا۔
3۔ فرانسیسی جہاز” جیرانیوم”:- اس جہاز نے 24 نومبر ا1974 کو پیغام بھیجا کہ موسم خوشگوار ہے۔ اسکے بعد یہ جہاز اپنے 29 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کہیں ” گمنام خدمت” پر چلا گیا۔
4۔ مال بردار جہاز ” بانا لونا” :- یہ لائیبیریا کا جہاز تھا۔ اس پر 13616 ٹن وزن تھا اور عملے کی تعداد 35 تھی۔ نومبر 1971ء میں شیطانی سمندر کی بھینٹ چڑھ گیا۔
5۔ مال بردار جہاز” ماسجوسار” : یہ جہاز بھی لائیبریریا کا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ جہاز شیطانی سمندر میں تھا کہ اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ لیکن یہ آگ جہاز کےاندر سے نہیں بلکہ پانی سے جہاز کی طرف بڑھی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اسی وقت اس کی تصویریں نکال لیں جس میں صاف نظر آرہا ہے کہ جہاز کے چاروں طرف پانی کی لہروں میں آگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جہاز میں کوئی قابل اشتعال مادہ نہیں تھا۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاز کو گھیرنے والی آگ مثلث کی شکل میں تھی۔ اس میں 124 افراد سوات تھے۔ یہ واقعہ مارچ 1987ء میں پیش آیا۔
6۔ مال بردار جہاز ” صوفیاباباس” :- یہ جہاز ٹوکیو(جاپان) کی بندرگاہ سے روانہ ہوا اور تھورا چلنے کے بعد دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ لیکن غائب نہیں ہوا۔ سمندروں کے کے سینے چیرنے والی اور مریخ پر کمندیں ڈالنے والی ٹیکنالوجی اسکا سبب جاننے سے قاصر رہی۔ سبب نا معلوم؟ تفتیش کے دروازے بند؟ غور کیجئے۔
7۔ یونانی جہاز” اجیوس جیور جیس” :- یہ بڑا تجارتی جہاز تھا۔ جو 129 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ اغواء کرلیا گیا۔ اس پر 16565 ٹن وزن لدا ہوا تھا۔ نہ جہاز کا پتہ چلا نہ افراد کا اور نہ ہی اس لدے مال کا اثر پانی پر نظر آیا۔

ایٹمی آبدوزوں کا اغواء۔۔۔ قزاق یا سائنسدان

جہاز کے غئاب ہوجانے کے بارے میں تو یہ ابہام کیا جاسکتا ہے کہ جہاز ڈوب گیا۔ لیکن جدید آبدوزیں جن میں وائرلیس نظام موجود ہو اگر وہ اس علاقے میں غائب کردی جائیں تو آپ کیا کہیں گے۔ پھر آبدوزیں بھی کوئی عام نہیں بلکہ ایٹمی آبدوزیں؟ ذرا سوچئے اور تعجب کیجئے۔ کسی سپر پاور کی ایٹمی آبدوز بغیر کسی سبب کے غائب ہوجائے اور اسکی طرف سے کوئی خاطر خواہ پریشانی یا اضطراب دیکھنے میں نہ آئے۔ گویا” جس نے ” دی تھی ” اسی نے؟ واپس لے لی۔
1۔ روسی آبدوز کٹر 1:- یہ جدید ایٹمی آبدوز تھی۔ مارچ 1984 میں شیطانی سمندر کی خفیہ قوت کے پاس مع عملے کے چلی گئی۔ عملے کی تعداد معلوم نہ ہوسکی۔ (شاید کوئی خاص لوگ اس میں سوار تھے)۔
2۔ روسی آبدوز ایکو 1:- پہلی آبدوز کے غائب ہونے کے صرف پانچ مہینے بعد ستمبر 1984میں جاپان کے ساحل سے 60 میل دور یہ بھی شیطانی سمندر میں غرق ہو گئی۔
3۔ روسی آبدوز ایکو 2:- جنوری 1986 کو یہ بھی اسی علاقے کی نظر ہوگئی۔ یہ بھی ایک ایٹمی آبدوز تھی۔
4۔ روسی آبدوز جولف 1:- اپریل 1968 میں یہ آبدوز غائب ہوئی۔ اس کے عملے کی تعداد 86 تھی۔ اور اس پر 800 کلو گرام ہیڈ ایٹمی وار ہیڈ لدے ہوئے تھے۔ افراد اور ایٹمی وار ہیڈ بغیر کسی سبب کے پانی کی گہرائیوں میں چلے گئے۔
5۔ فرانسیسی آبدوز چارلی:- یہ ایٹمی آبدوز تھی۔ ستمبر 1984ء میں اس علاقے میں اپنے 90 سواروں سمیٹ غائب ہوگئی۔
6۔ برطانوی آبدوز فوکسٹرول :- نومبر 1986ء میں اپنے عملے سمیت غائب ہوگئی۔

شیطانی سمندر کے اوپر اغواء کئے جانے والے طیارے

مارچ 1957 میں دس دن کے اندر امریکہ کے تین جنگی طیارے اپنے تمام عملے سمیت اس طرح غائب ہوئے کہ کوئی نام و نشان نہ مل سکا۔ نہ ہی کسی حادثے یا فنی خرابی کا پیغام پائلٹ کی جانب سے موصول ہوا۔ یہ طیارے، JD-1, KB-50 اور C-97 تھے۔ اسکے علاوہ جاپان کا جنگی طیارہ P-2J 16 جولائی1971 کو غائب ہوا۔ یہ بھی کوئی ہنگامی پیغام نہیں دے سکا۔
27 اپریل 1971 کو جاپان کا ہی ایک اور جنگی طیارہ P2V-7 غائب ہوا۔ اسکے دو مہینوں بعد جاپان کا تدریبی طیارہ IM-1 غائب ہوا۔
JA-341 مسافر بردار طیارہ بمعہ صحافیوں کی ٹیم کے اس علاقے کے اوپر سے گذر رہا تھا۔ یہ صحافی امریکی مال مال برادر جہاز ” کیلیفورنیا مارو” ( جو کہ پہلے یہاں غائب ہوچکا تھا) کی تحقیق کے سلسلے میں وہاں جارہے تھے۔ یہ صحافی غائب شدہ جہاز کی تحقیق تو نہ کرسکے البتہ دنیا کو اپنی تحقیق میں ضرور لگا گئے۔ ایسے غائب ہوئے کہ نہ طیارے کا سراغ ملا نہ صحافیوں کی ٹیم کا۔
19 مارچ 1957ء کو سابق فلپائنی صدر کا طیارہ 24 حکومتی اہلکاروں سمیت شیطانی سمندر کی فضاء میں غائب ہوا اور کوئی سراغ نہ مل سکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں