291

خورشید ملت کی یاد میں In the Memory of K. H. Khurshid

زندگی میں بہت سے رہنماؤں کو ملنے  کا موقع ملتا رہتا ہے اور ملنے  سے قبل اُن  کی شخصیت  کا ایک تصور ذہن میں ہوتا ہے لیکن اکثر کو ملنے کے بعدتصور کا وہ تاج محل زمین  بوس ہوجاتا ہے
لیکن وہ اس کے برعکس تھے  اور ملاقات کے بعد میں ان کی شخصیت  کا اور بھی معترف  ہوگیا۔ مجھے  وہ بہت متاثر کن،خوش  لباس،خوش  گفتار، اور متوازن شخصیت  نظر آئے۔اُن کی پروقارشخصیت  اور شفقت  بھرے انداز گفتگو نے مجھے  اُن کا گرویدہ بنا دیا۔ بڑے قد کاٹھ کے سیاسی رہنماؤں میں جو رعونت  اور احساس برتری عام سی بات ہے، لیکن وہ اس سے کوسوں دور تھے۔ان سے ملاقات  کا اشتیاق  اس وجہ سے تھا کہ اُس شخصیت سے ملوں گا جنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور میں شب  و روز کام کیا اور اپنی آنکھوں سے پاکستان  بننے  دیکھا تھا۔
جاتے وقت  میں یہی سوچ رہا تھا کہ انہوں نے بر صغیر کے اہم رہنماؤں گاندھی، نہرو ، پٹیل، مولانا آزاد اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کو بڑی قربت سے دیکھا ہوگا اور وہ اُن کے بارے میں وہ کچھ بتا سکتے  تھے  جو عموماََ پڑھنے  کو نہیں ملتا۔ پرائیویٹ سیکریٹری ہونے کے ناطے وہ قائد اعظم کے ساتھ خلوت  اور جلوت  میں رہے اس طرح قائد کی شخصیت  اور افکار کے بارے میں کوئی شخص اُن سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ پھر وہ تحریک آزادی کشمیر کے بھی چشم دید گواہ تھے  اور اُن حقائق کوبڑی اچھی طرح جانتے تھے۔ آزادجموں کشمیر میں جمہوریت  کی داغ بیل انہوں نے ہی ڈالی اور پھر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے  آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطا لبہ کیا جس سے بہتر حکمت عملی پر کسی اور نہیں غور نہیں کیا اس طرح انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے  بہترین روڈ میپ  دیا۔ انہی سوچوں میں مگن جب اپنے بھائی طارق چوہدری کے ہمراہ ان کے دفتر میں پہنچے  تو انہوں نے خوش خلقی اوربڑی شفقت کے ساتھ ہمیں خوش  آمدید کہا ۔کے ایچ خورشید صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۸۴ء میں لاہور ہائی کورٹ کے عقب  میں ٹرنر روڈ پر ان کے دفتر میں ہوئی تھی۔
انہوں نے اس تصور کر رد کیا کہ قائد اعظم آمرانہ شخصیت کے مالک تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں اکثر رہنما بہت  تیاری کرکے آتے تھے اوراپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کرتے تھے  اور جمہوری انداز میں فیصلے کئے  جاتے تھے۔ قائد اعظم اصولوں کی پاسداری کرتے تھے وہ جھوٹ، منافقت، مفاد پرستی اور بد انتظامی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ خورشید صاحب  کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کے بعد اگرحسین شہید سہروردی کو اُن کا جانشنین  بنایا دیا جاتا تو پاکستان دو لخت  نہ ہوتا اور آج  پاکستان کے حالات بہت  بہتر ہوتے۔ ریاست آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت کے آغاز، تعمیر و ترقی اور مسئلہ کشمیر کو نئی جہت  دینے  کے لیے  اپنی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کے قیام اور صدر پاکستان ایوب خان سے ان اختلافات  پر بھی ہماری بات ہوئی۔ یہ ایک یاد گار ملاقات تھی جس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
 خورشید حسن خورشید ریاست جموں کشمیرکی تمام اکائیوں یعنی وادی کشمیر، صوبہ جموں، آزادکشمیر، گلگت  بلتستان اور مہاجرین جموں کشمیر میں یکساں مقبول تھے  اورسب کے مابین ایک رابطہ تھے یہ امتیاز کسی اور کشمیری رہنماء کے حصہ نہیں آیا۔ کے ایچ خورشید بہت اچھی یاداشت کے مالک تھے  اور اپنے  کارکنوں کے نام تک انہیں یاد تھے۔ عام لوگوں سے بھی بہت اچھی طرح ملتے  تھے  اور ان سے مل کر کسی کو بھی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ان کی موجودگی میں مجھے  تقاریر کرنے کا موقع ملا جو میرے لیے  ایک اعزاز ہے۔ خورشید صاحب کہا کرتے تھے  کہ جب مخلص سیاستدان زندہ ہوتے ہیں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب  وہی دنیا سے چلے  جاتے ہیں تو قوم ان کی خدمات  کا اعتراف  کرنا شروع کردیتی ہے۔ اُن دنوں جہاد اور مسلح جدوجہد سے کشمیر کی آزادی کی باتیں ایک بار پھر شروع تھیں جس پر خورشید صاحب  کا موقف  تھا کہ سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا چاہیے  اورآزادکشمیر حکومت کو پاکستان بھی تسلیم کرے اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی یہ مطالبہ کیا جائے اور اس طرح آزادکشمیر حکومت خود بین الاقوامی سطح پر اپنی آزادی کی بات خود کرے۔
اپنے  انتقال سے قبل وہ آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب  اختلاف  تھے۔ان کی وفات سے پورے ایک سال قبل ۱۱ مارچ ۱۹۸۷ء کو ہم انہیں بھمبر مدعو کیا جہاں انہوں نے محمد شفیع چوہدری میموریل سوسائٹی بھمبر پہلے  پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور میٹرک کے متحان میں نمایاں پوزیشن رکھنے  والوں کو انعامات  دیے۔ تقریب کے بعد وہ ہمارے گھر بھی تشریف لائے۔ اُن کی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل ان کا پنجاب یونیورسٹی لاہور میں مسئلہ کشمیر کے حوالے اہم خطاب سُنا اور بعد میں اُن سے ملاقات بھی ہوئی جو شائد آخری ملاقات  ثابت  ہوئی۔ انہوں اپنی زندگی کا آخری خطاب وکلاء کنوینشن میرپو ر میں۱۰مارچ ۱۹۸۸ء کو کیا ۔ انہوں نے وہ تاریخ ساز  پیغام دیا جو آج بھی سب کے لیے مشعل راہ ہے ۔
 انہوں نے کہا کہ انسان آتے جاتے رہتے ہیں مگر اُن کے اصول ہمیشہ زندہ رہتے  ہیں اور جو لوگ اصولوں کی خاطر زندہ رہتے  ہیں وہ ہمیشہ کے لیے  امر ہوجاتے ہیں۔ انسانی حقوق  اور شہری آزادیوں کی خاطر جدوجہد کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے  ہیں ۔ بلاشبہ انہوں نے بالکل درست کہا تھا۔ وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور اُن کے لیے  جو احترام اور عزت ہے وہ شائد کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ اُن کے مخالفین بھی اُن کا نام عزت  و احترام سے لیتے  ہیں۔ ان دامن ہر طرح کی کرپشن، لالچ اور مالی بد دیانتی سے پاک رہا جو آج کل کے سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ قائد اعظم کے سیکریٹری، آزادکشمیر کے صدر اور قائد حزب  اختلاف  رہنے  کے باوجود بیرسٹر کے ایچ خورشید وہ پوری عمر کرائے کے مکان میں رہے، وفات پبلک ٹرانسپورٹ  میں سفر کرتے ہوئے ہوئی ا ور مرتے وقت  جیب سے صرف ۳۷ روپے نکلے۔ کیا آج  پورے پاکستان اور آزادجموں کشمیر میں قومی سطح کا ایک بھی کوئی ایسا رہنما ہے جو اُن جیسا ہو۔

( عارف  کسانہ )

اپنا تبصرہ بھیجیں