Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
284

میری شناخت: میرے رسولﷺ My Identity My Prophet (PBUH)

قوم افراد کے اُس مجموعے کو کہتے ہیں جو کسی مشترکہ اساس کے تحت باہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوۓ ہوں۔ یہ مشترکہ اساس نسل بھی ہو سکتی ہے، اور زبان، ثقافت، وطن یا کوئی نظریہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مشترکہ اساس اُس قوم کی شناخت کا درجہ رکھتی ہے اور انسان ہو یا کوئی اجتماعیت، اپنی بقا اپنی شناخت سے وابستہ محسوس کرتے ہیں اگرچہ کسی بھی اجتماعیت سے انسان کی وابستگی میں غالب عنصر جذباتیت کا ہوتا ہے لیکن بہرحال لوگوں کو باہم جوڑ کر اُن میں باہم جذباتی وابستگی پیدا کر دینے والا بنیادی عنصر کوئی نا کوئی عقلی دلیل ہی ہوا کرتی ہے۔مثال کے طور پر جب کوئی شخص وطنی قومیت کو ہی اپنی شناخت بناتا ہے تو وہ پہلے عقلی پیمانوں پر یہ تجزیہ کرتا ہے کہ اُسے اِس اجتماعیت سے کیا کیا فوائد حاصل ہیں اور اِس اجتماعیت کو ترک کر دینے پر اُسے کن کن فوائد اور سہولتوں سے دستبردار یا محروم ہونا پڑے گا۔

آج کی مہذب دنیا میں وطنی قومیت کا تصور سب سے زیادہ مقبول تصورِ اجتماعی ہے۔ لہٰذا ہر ملک اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں اپنے ملکی مفاد کو دیکھ کر مرتب کرتا ہے۔ اگر کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کر دے تو اُسے قومی شناخت پر حملہ تصور کیا جاتا ہے اور پوری قوم اپنی اُس شناخت کی بقا اور تحفظ کے لیے یکجان اور یک قالب ہو کر کٹ مرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ جدید دنیا تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی ملک یہ محسوس کرے کہ اُس کہ شناخت کو کسی بیرونی یا اندرونی دشمن سے خطرہ ہے تو وہ اپنے دشمن کی واردات کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کیے بغیر پیشگی اقدام کے نظریے کے تحت اپنے اُس دشمن پر اُس کے اقدام سے پہلے ہی حملہ کر سکتا ہے۔ اِسے جدید دور میں Pre-emptive Strike کا نام دیا گیا ہےیعنی اقدام ہی بہترین دفاع ہے۔ اِسی کو انگریزی میں کہتے ہیں “Offense is the best defense” ۔

اب اِسے حسنِ اتفاق کہیں، حادثہ کہیں یا مشیتِ خداوندی، 14 اگست 1947 کو روۓ ارضی پر ایک ملک معرضِ وجود میں آتا ہے جس کے حصول کے لیے ایک قوم کسی نظریے کی بنیاد پر اکٹھی ہو کر مشترکہ جدوجہد کرتی ہے کہ ہم یہ ملک حاصل کر کے یہاں اپنے محبوب نظریے کی تنفیذ اور ترویج کریں گے۔ تاریخ کے طالبِ علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ اللٰہ! “ کا نعرہ بلند ہونے سے پہلے مسلم لیگ کی عوامی حیثیت کیا تھی اور اس کے بعد کیا تھی۔ کچھ دانشور لوگ یہ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم کے پیشِ نظر ہرگز ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام نہیں تھا بلکہ انہوں نے تو یہ نعرہ محض اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر لگایا تاکہ اِس نعرے کے ذریعے عام عوام کے جذبات کو ابھار کر اپنے سیاسی مقصد یا فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اگر اُن دانشوروں کی اِس دلیل کو بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ قائدِ اعظم اور اُن کے ساتھی منافق تھے جنہوں نے مسلمانوں کے جذبات کو اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ابھارا تو پھر بھی بہرحال یہ سوال تو رہتا ہے کہ عوام کیسا ملک چاہتی تھی جس کے لیے انہوں نے اتنی قربانیاں دیں؟ اگر تحریکِ پاکستان کے پیچھے قوتِ محرکہ مسلمانوں کا سیاسی یا معاشی استحصال تھا تو کیا وجہ تھی کہ اِن دونوں محرکات کے ہوتے ہوۓ بھی اِس تحریک کو اسلام کا انجیکشن دینا پڑا؟ تحریکِ پاکستان اور اس کی اساس بذاتِ خود ایک پورا موضوع ہے جس پر انشاء اللٰہ ایک اور تحریر مرتب کروں گا لیکن یہاں اُس تحریک کے تھوڑے سے حوالے دینے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں لوگوں نے قربانی اس لیے دی تھی تاکہ اس ملک کو اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کا نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ یہی علامہ اقبال کا خواب تھا اور یہی قائدِ اعظم کی خواہش تھی۔ میں اوپر بیان کیے گئے دانشوروں کی طرح ہرگز قائدِ اعظم کو منافق لیڈر اور سیاست دان نہیں مانتا۔

جیسا کہ میں بیان کر چکا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا اور اس کی اصل شناخت اسلام ہی ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی شناخت کس سے وابسطہ ہے؟ وہ کون سی اساس ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی کو مسلم اور کسی کو غیر مسلم کی شناخت عطا کرتے ہیں؟ وہ اساس ہے محمد الرسول اللٰہﷺ کی ہستی کی جو اُن کو خدا کا آخری نبی مانتا ہے ہم اسے مسلم قومیت کا فرد تصور کرتے ہیں اور جو آپؐ کی اِس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہم اسے اپنی اِس مشترکہ شناخت کا حصہ دار تصور نہیں کرتے۔ گویا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری قومی شناخت محمد الرسول اللٰہﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ اور جب کوئی اُن کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا اُن کی توہین کرتا ہے تو اُسے سمجھنا چاہیے کہ وہ میری شناخت پر حملہ کر رہا ہے اور اوپر میں اس نفسیاتی حقیقت کا ذکر کر چکا ہوں کہ فرد ہو یا قوم، اپنی شناخت پر حملے کو کبھی قبول نہیں کرتے۔ اپنی شناخت کی بقا کی خاطر وہ یک جان اور یک قالب ہو کر اپنی جان تو کیا بلکہ اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ میری فطرت کی آواز ہے کہ میں اپنی شناخت پر حملہ کرنے والے دشمن کا سر کچل دوں، بالکل ایسے ہی جسے کوئی ریاست اپنے دفاع میں اپنے اوپر حملہ آور کسی دوسرے ملک کو دندان شکن جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔

اب یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ ہماری اِس قومی شناخت پر کسی بھی قسم کے حملہ آور (چاہے بیرونی ہو یا اندرونی) کو کچلنے کا اختیار کس کے پاس ہو گا اور طریقہِ کار کیا ہو گا؟ انسان نے ارتقاء کی جو منزلیں طے کی ہیں اس کا تقاضا یہی ہے کہ یہ اختیار فرد کی بجائے ریاست کے پاس ہونا چاہيے۔ اگر کسی فرد کو لگے کہ کسی دوسرے شخص یا گروہ نے اس کی شناخت پر حملہ کیا ہے (یعنی توہینِ رسالت کی ہو) تو اسے ثبوت کے ساتھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ اگر ہر فرد خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن کے بیٹھ جائے گا تو معاشرے میں فساد اور انتشار پیدا ہو گا۔ نتیجتاً معاشرے میں اعتدال پسندی کی جگہ انتہا پسندی معاشرتی رگوں میں دوڑنے لگے گی۔ اگر لوگ یہ محسوس کریں کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر انتشار پیدا کرنے کی بجائے ایک منظم سیاسی تحریک کے ذریعے وہ نظامِ عدل لانے کی جدوجہد کریں جو اُنہیں اُن کا حق دے سکے۔ دوسری طرف ریاست کو بھی اس معاملے کی حساسیت کا ادراک کر کے ایسی مثال قائم کرنی چاہيے کہ آئیندہ کسی کی جرات نہ ہو کہ وہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کی شناخت پر حملہ کر سکے۔ اور اپنی شناخت کے تحفظ کا یہ حق ہر فرد، ہر طبقے اور ہر گروہ کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور جو سزا توہینِ رسالت کی ہو وہی سزا کسی مظلوم پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کی بھی ہونی چاہیے۔

یہ ریاست کی کوتاہ بینی اور بد عملی ہے جس سے مایوس ہو کر لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جہاں تک کسی بیرونی طاقت کو اپنی شناخت پر حملے کا دندان شکن جواب دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو اتنا مہذب اور طاقتور بنائیں کہ کوئی غیر آپ کی شناخت پر حملہ کرنے سے حیا بھی کھاۓ اور خوف بھی۔ اور سب سے تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد 14 سو سال سے اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم نہ کر کے توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے سب سے بڑے مرتکب تو ہم خود ہو رہے ہیں۔ نہ ہماری انفرادی زندگی میں رسولﷺ کی سیرت کا مکل عکس نظر آتا ہے اور نہ ہی ہماری اجتماعی زندگی میں اُس نظام کا کوئی پرتو یا عکس نظر آتا ہے جو محمد الرسول اللٰہﷺ لے کر آۓ تھے۔

 ( تعارف : لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں