275

پاکستان ڈے سیلیبریشن سٹاک ہوم- Pakistan Day Celebration Fitja Stockholm

23 مارچ کے حوالے سے سٹاک ہوم میں یوم پاکستان کی تقریب منعقد کی گئی۔ جسمیں پاکستان سے اخوت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر شعیب امجد، مشہور ڈرامہ نگار اور شاعر امجد اسلام امجد اور مشہور پنجابی اور اردو شاعر جناب انور مسعود کے علاوہ سویڈن میں پاکستان کے سفیر طارق ضمیر صاحب اور پاکستانی خاندانوں کی ایک پہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جناب کاشف عزیز بھٹہ اور ایشین اردو سوسائٹی کے صدر جناب جمیل احسن صاحب نے بڑے دلچسپ طریقے سے تقریب کی میزبانی کے فرائض ادا کیے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر صاحب نے پڑے جذباتی انداز میں مہمانوں کا تعارف کرایا اور مہمانوں کیساتھ اپنے گزشتہ بیتے ہوئے لمحات کو یاد کیا۔ اخوت پاکستان کے ڈائریکٹر جناب امجد شعیب صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے سفیر صاحب آبدیدہ ہو گئے اور سامعین کو بتایا کہ امجد شعیب صاحب پاکستان میں ڈی ایم جی گروپ میں اپنے شاندار مستقبل سے استعفی دے کر غریب اور بے بس لوگوں کی مدد کرنے کیلئے  کمربستہ ہو گئے۔ امجد اسلام امجد سفیر صاحب کے پرانے ملنے  والے ہیں اور انور مسعود صاحب انکے  کالج کے زمانے کے استاد ہیں۔
اخوت پاکستان کے ڈائریکٹر امجد شعیب صاحب تقریر کے لئے آئے اور انہوں نے بڑے دھیمے  انداز میں اپنی بات شروع کی اور جوں جوں انکی بات  آگے بڑھی سامعین کی آنکھوں میں آنسو آنے شروع ہوگئے۔ امجد شعیب  صاحب بتاتے ہیں کہ وہ اپنے  آفس میں بیٹھے تھے  کہ ایک خاتون آئیں اور دکھ بھری آواز میں اپنی داستان سنانے لگیں کہ اسکے خاوند کا انتقال ہو گیا ہے اور اسکے  چھوٹے چھوٹے  بچے  ہیں۔ اسکے  خاوند کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کا اچھا مستقبل دیکھیں مگر انکی وفات کے بعد اب یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اسلئے اب وہ مدد چاہتیں ہیں کہ کوئی انہیں قرضہ حسنہ دے دے جو سود سے پاک ہو اور وہ اسے جلد واپس کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسکی آنکھوں کے آنسو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے اسے 10 ہزار روپے دے دئیے۔
چھ مہینے  بعد وہ عورت دوبارہ انکے پاس آئیں اور انہیں بتایا کہ کس طرح اسنے اور اسکی بیٹی نے دو سلائی مشینیں خرید کر اپنا گھر چلایا اور اپنی بیٹی کی شادی بھی کی اور اسکے بچے اب سکول جارہے ہیں اور وہ اب وہ دس ہزار واپس کرنے آئی ہے۔  اس عورت نے اپنے دوپٹّے کے پلو سے پیسے نکالتے ہوئے کہا کہ آپ یہ پیسے اپنی جیب میں نہ رکھیں بلکہ کسی اور ضرورت مند کو دے دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر کے آپکو واپس کر دے اور یوں یہ سرکل چلتا رہے۔ امجد شعیب صاحب بتاتے ہیں کہ وہ اس عورت کی باتوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے دو لاکھ روپے اکھٹے کیے اور اس عورت کی غریب بستی میں چلے گئے۔ انہوں نے وہاں لوگوں کو قرضہ حسنہ دیا جس سے لوگوں فروٹ یا سبزی کی ریڑھی لگائی، سائیکل پنکچر کی دوکان بنائی، چائے کا کھوکھا لگایا اور اپنا کام چل نکلنے کے بعد پیسے واپس کر دیے۔ وہ اس کام سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نوکری سے استعفی دے کر یہ کام شروع کر دیا۔ جو کام دس ہزار سے شروع کیا گیا تھا وہ اب 37 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے اور ایک کروڑ پاکستانی قرضہ حسنہ سے فائدہ آٹھا رہے ہیں۔ لوگ نہ صرف بعد میں انہیں پیسے واپس کر دیتے ہیں بلکہ مانگنے والے کی بجائے دینے والے بن جاتے ہیں اور ایک روپیہ ماہانہ عطیہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ایک روپیہ سے بھی ماہانہ کئی کروڑ بن جاتے ہیں۔
امجد شعیب صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک کروڑ پاکستانیوں کو مانگنے والے کی بجائے دینے والا بنا دیا ہے۔ انکا نیا پروجیکٹ اخوت یونیورسٹی کا قیام ہے جسمیں پاکستان کے سارے صوبوں کشمیر اور فاٹا سے طالبعلم پڑھ رہے ہیں اور 12 مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ یہ طالبعلم نہ صرف بغیر فیس کے پڑھ رہے ہیں بلکہ انہیں کتابیں کپڑے کھانا اور رہائش بھی دی جاتی ہے اور ان سے ایک زبانی کنٹریکٹ ہوا ہے کہ دس سال بعد جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے تو قسطوں میں یہ پیسے واپس کر دیں گے اور اسطرح یہ پیسے نئے آنے والے طالبعلموں کے کام آنے شروع ہو جائیں گے اور اس طرح یہ سرکل تمام عمر چلتا رہے گا۔ اس سارے عمل میں غریب لوگ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں اور بھیک سے بھی بچے ہوئے ہیں اور اپنی عزت نفس زندہ رکھتے ہوئے وہ پیسے واپس بھی کردیں گے۔ یہ ایسا عمل ہے جو اکنامکس کے مروجہ اصولوں کے خلاف ہے مگر یہ طریقہ نبی پاک صلی اللہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہے اور کامیابی اور برکت کے ساتھ چل رہا ہے۔
اب اخوت یونیورسٹی کا نیا بلاک بننے جا رہا ہے جس پر 50 کروڑ خرچہ آرہا ہے۔ اس پیسے کو اکٹھا کرنے کیلئے امجد شعیب صاحب نے ہزار روپیہ فی اینٹ والا فارمولا بنایا ہے۔ کوئی صاحب ایک اینٹ لگا رہا ہے اور کوئی صاحب کئی اینٹیں لگا رہا ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی جیب کے مطابق یونیورسٹی میں اینٹیں لگائیں تاکہ اس نیکی کے کام کا صلہ اس جہان میں بھی پائیں اور اگلے جہان میں بھی جنت کے حقدار بنیں۔ اخوت یونیورسٹی میں ایک دیوار بنائی گئی ہے جہاں اینٹیں خریدنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔
اسکے بعد تقریب میں جناب امجد اسلام امجد نے اپنی شاعری کے موتی بکھیرے اور سامعین محفل کی خوب داد سمیٹی۔
تقریب کے آخر میں ہر دل عزیز شاعر پنجاب جناب انور مسعود صاحب نے اپنا شاعرانہ گلدستہ پیش کیا جسمیں انہوں نے اپنی مشہور پنجابی نظمیں بنین اور سرمہ اور جنتری بیچنا سنا کر سامعین کے دل جیت لئے۔

( نوٹ: اخوت فاؤنڈیشن میں اپنے حصے کی اینٹ لگانے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

http://www.akhuwat.org.pk/how_to_donate.asp

یہاں پیسے ڈونیٹ کریں اور آخرت میں اپنے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ شکریہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں