Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
293

دہشت گردوں کا کالعدم ترجمان، احسان اللہ احسان۔ Terrorists Banned Spokesman Ehsan Ullah Ehsan

ابدی حقیقتیں تبدیل نہیں ہوتیں،کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک دہشت گرد تنظیم ہے،کالعدم جماعت الاحرار بھی ایک دہشت گرد تنظیم ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح داعش اور داعش خراسان دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ان تنظیموں کے فکری،معاشی و رہائشی سہولت کار بھی دہشت گردوں کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔قاتلوں کے یہ غول ایک دوسرے کے نہ صرف فکری معاون ہیں بلکہ ان سب کا کسی نہ کسی سطح پہ مستقل رابطہ بھی ہے۔سب کا ہدف ایک ہی ہے۔کوئی نام نہاد” عالمی خلافت”۔کیا یہ سب خود کو غزوہ ہند کا مجاہد نہیں سمجھتے؟کئی بار لکھا کہ علم الرجال کے ماہرین کو غزوہ ہند سے متعلق احادیث پہ بحث ضرور کرنی چاہیے۔یہ ایسا کام نہیں جسے خارجی قاتلوں کے سپرد کر دیا جائے۔ دقیق مذہبی مسئلہ ہے،غالب یاد آتے ہیں۔

کھیل بچوں کا ہوا،دیدہ بینا نہ ہوا

رونا مگر یہی ہے کہ علمائے حق کی ترجیح گوشہ نشینی ہے۔سیاسی مولوی خود کو اسلام کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ہر ایک اپنے اپنے مسلک کا نمائندہ ہے۔ان سے بہتر ترجمانی تو” کالعدم “احسان اللہ احسان اپنے گروہ کی کیاکرتا تھا۔ہم مسلمان اس کام کے ماہر ہیں،یہ ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ ساری دنیا مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے یکجا ہے۔کیا یہ سچ نہیں کہ ہر مسلمان غلبہ اسلام پر یقین کامل رکھتا ہے۔جب غلبہ کا یقین ہے تو اس غلبے کے لیے جدو جہد بھی کی جا رہی ہے۔ یہیں سے فکری مغالطے نے جنم لیا۔اسلام علم و صداقت کا دین ہے،عدل اور انسان دوستی کا۔ مولوی نے اسے تلوار کے ذریعے پھیلانے کو لشکر تیار کیے اور نتیجہ معلوم۔امریکہ کا تازہ ارشاد یہ ہے کہ وہ کالعدم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ القرآن کی ان فلاحی تنظیموں کو بھی پاکستان کے اندر نشانہ بنائے گا جو دہشت گردوں کی سہولت کار ہیں۔الٰہی حکم ،کہ بے شک اللہ کا دین غالب آ کر رہے گا(مفہوم) کی تعبیر اگر علم و حکمت سے کی جاتی تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ اسامہ بن لادن اور ظواہری وغیرہ کسی اور طرح دنیا پہ چھا جانا چاہتے تھے۔

دہشت گردی ایک طویل سلسلہ ہے۔تاریخ انسانی اس سے زخم زخم ہے۔ متشدد فکری رویوں کی ہم نے نفی کرنی ہے۔آنے والی نسلوں کو علم و ہنر سے آگاہی دینا ہے۔ضرور ایسے ادارے بننے چاہیئں جہاں دہشت گردی اور اس کی وجوھات پر تحقیق ہو اور اس کا حل تلاش کیا جائے۔یہ ایک تحقیقی اور علمی رویہ ہے۔ایک رویہ اوربھی ہے جسے تقلیدی اور غیر منطقی کہا جاتا ہے۔ہم سماجی رویوں میں اسی تقلیدی سکول آف تھاٹ کے لوگ ہیں۔ہم جان ہی نہ پائے کہ دہشت گردوں کا سابق متحرک ترجمان “کالعدم”ہو کر بھی امن کا سفیر نہیں ہو سکتا۔احسان اللہ احسان نے اپنے انٹرویو،اور اعترافی ویڈیو میں اس کے سوا کیا کہا،کہ بھارتی خفیہ ایجنسی”را” اورافغانستان کی ایجنسی”ڈی این ایس” باہمی اشتراک سے پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیاں کراتی ہیں، اور “را”پاکستان کو خدا نخواستہ لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔طالبان ہوں یا دیگر دہشت گرد گروہ،انھیں بھارت کی سپورٹ حاصل ہے اور یہ کہ ہر طالبان کمانڈر “امیر”بننا چاہتا ہے۔یہ بھی کہ بھتہ خوری اور فنڈنگ کے ذریعے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔سب سے مضحکہ خیز بات جو دہشت گردوں کے “کالعدم” ترجمان احسان اللہ احسان نے کہی وہ یہ کہ، اسے اے پی ایس پشاور حملے کا دکھ ہوا تھا،وہ ملالہ پر حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتاتھا مگر اس سے زبردستی بیان دلوایا گیا۔اسی طرح کی دیگر باتیں۔

کیا یہ ہر پاکستانی نہیں جانتا کہ بھارت کی بد نام ِ زمانہ خفیہ ایجنسی”را”پاکستان کے خلاف تخریب کاریوں میں ملوث ہے۔بھارت آشکار دشمن ہے اور اس سے ہر پاکستان آگاہ ہے۔اس کے سوا دہشت گردوں کے “کالعدم ترجمان”احسان اللہ احسان کے انٹرویو میں کیا تھا؟ اس نے یہ تو بتا دیا کہ رقم اور اسلحہ کی شکل میں مدد بھارت سے ملتی ہے۔لیکن اس نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والوں کی فکری تربیت اور مدد کہاں سے ہوتی ہے؟کیا دہشت گردوں کے “کالعدم ترجمان” کےانٹرویو کا مرکزی خیال یہی نہیں کہ “طالبان بڑے برے لوگ ہیں اور میں بہت نرم دل اور معصوم ہوں، یعنی کہ میں ایک “اچھا طالبا ن” ہوںمگر میں مجبور تھا؟حیرت ہوتی ہے،دہشت گردی کے شکار ملک میں یہ منظر دیکھ کر،کہ دہشت گردوں کے سابق ترجمان جو اب “کالعدم ترجمان” ہو چکا ہے، اسے میڈیا پر لا کر اس سے دہشت گردی اور اس کی وجوھات پر لیکچرز کرائے جاتے ہیں۔میر تقی میر کا لازوال شعر یاد آتا ہے

میر کیاسادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں


کیا پاکستان کے ستم رسیدہ لوگ وہ سب بھول جائیں جس کی ذمہ داری دہشت گردوں کا “کالعدم ترجمان” احسان اللہ احسان،بڑے فخر سے قبول کیا کرتا تھا؟کیا اپنی فکر میں یہ اب بھی خود کو ہی اسلام کا نمائندہ نہیں سمجھ رہا ؟کتنے ہی دھماکوں کی ذمہ داری اس نے “فاتحانہ”مسکراہٹ کے ساتھ قبول کی۔دہشت گردوں کا “کالعدم ترجمان” اپنے دوست،کالعدم پنجابی طالبان کے کمانڈر عصمت اللہ معاویہ کے ذریعے”تائب”ہو گیا ہے۔مصحفی نے کیا خوب کہا تھا کہ،

میں عجب یہ رسم دیکھی کہ بروزِ عید ِ قرباں
وہی قتل بھی کرے ہے،وہی لے ثواب الٹا

دہشت گردوں کے کالعدم ترجمان کا مگر اب تازہ ہدف کیا ہو گا؟تاریخ یہی ہے کہ دہشت گرد کالعدم تنظیمیں نئے نام سے کام شروع کر دیتی ہیں۔

( تعارف : صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں