265

پٹواری سوچ

آج کھانا کھا کر ہوٹل سے نکلا تو ایک پرانے دوست پر نظر پڑ گی۔ ملاقات ہوئے برسوں بیت گے تھے چنانچہ آواز دے کر اسے روکا اور ابتدائی حال چال پوچھنے کے بعد اسے چائے کی دعوت دی۔

موصوف نے اپنی سائیکل کو تالا لگایا اور جس ہوٹل سے میں کھانا کھا کر نکلا تھا وہیں جا بیٹھے۔

باتوں کا سلسلہ چلا تو امریکہ چائنہ سے ہوتا ہوا پاکستانی سیاست تک آ گیا۔

میں نے دکھ بھرے انداز میں ملکی صورتحال پر تبصرہ کیا تو موصوف آگ بگولا ہو گے. میں اداروں اور سسٹم کی خامیاں، معاشی نا انصافی، گنواوں تو موصوف مجھے ایٹمی دھماکوں، موٹر ویز، میٹرو، اورنج ٹرین، انڈر پاسسز، لاہور کی خوبصورتی، سی پیک کے حوالوں سے حکومت کی تعریفوں کے پل باندھیں۔

میں سمجھ گیا کہ اسکی سوئی جہاں اڑی ہے وہاں سے نکالا نا ممکن ہے چنانچہ چسکے لینے کے لئے میں نے بھی ہر کارنامے پر واہ واہ شروع کر دی۔

دو گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد دوبارہ ملنے کے وعدے اور سیل نمبر کے تبادلوں پر ہم ہوٹل سے باہر نکلے. دوست مطمئین سا سائیکل کی چابی گھماتا اس جگہ بڑھا جہاں سائیکل لاک کر کے کھڑی کی تھی، پہلے اسکا چابی والا ہاتھ رکا پھر رنگ اڑا اور آخر میں ایک بڑی سی گالی دے کر بولا میری سائیکل کہاں گی۔

ہم نے آس پاس سائیکل کی تلاش کی ہوٹل کے گارڈ سے پوچھا لیکن کوئی سراغ نا مل سکا۔

اب دوست پریشان نظر آنے لگا میں نے تسلی دی اور کہا چلو تھانے چلتے ہیں رپورٹ لکھوا دیں۔

تھانے کا نام سن کر مزید گالیاں دی اور کہتا وہاں میری کون سنے گا ایف آی آر لکھوانے کے لیئے سفارش ضروری ہے۔

اس کے بعد کی بات چیت کچھ یوں تھی۔

یار ابھی تو آپ کہ رہے تھے حکومت نے تھانہ کلچر بدل ہر تھانہ ماڈل تھانہ بن گیا ہے۔

وہ بولا پولیس سے اللہ بچائے اپنے باپ کی نہیں ہوتی۔

اچھا چھوڑ یار نئ سائیکل لے لینا اب تو گورنمنٹ نے کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار کردی۔

کہتا ابے جاہل پندرہ ہزار میں گھر نہیں چلتا تو سائیکل لینے کی بات کر رہا ہے۔

میں بولا چل کوئی بات نہیں میڑو یا اورنج ٹرین سے سفر کر لینا۔

کہتا تو ابھی تک ویسا ہی پاگل ہے جیسا سکول کے ذمانے میں ہوتا تھا میٹرو اورنج تو بڑے شہروں میں ہیں میں رحیم یار خان میں نوکری کرتا ہوں۔

میں بولا چل یار حکومت نے ملک کو معاشی ترقی دی ہے سی پیک شروع کیا ہے انشاءاللہ تیرا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

غصہ سے میری طرف دیکھ کر کہتا تجھے مستی سوج رہی ہے میری جان پر بنی ہے ڈالر نیچے آے سٹاک مارکیٹ اوپر جائے یا سی پیک بنے اس میں میرا کیا حصہ میں نے آج تک ڈالر ہاتھ میں پکڑ کر نہیں دیکھا، لنڈا مارکیٹ سے شاپنگ کرتا ہوں سٹاک مارکیٹ کا مجھے کیا فائدہ؟

غرض اب میں اسے جو بھی راے دیتا اور تھوڑی دیر پہلے کے اس کے بیان کئے گے جتنے بھی بلند و بانگ دعوے یاد دلاتا وہ اتنی ہی مجھے گالیاں دیتا۔

اپنی غریبی، مہنگائی، بچوں کے فیس، بیماری، روز مرہ کے اخراجات کا رونا روتا اور سائیکل کے بنا اپنی زندگی کا تصور کر کے پریشان ہوتا رہا۔

میں نے دس ہزار اسے سائیکل کی مد میں ادا کیے اور تسلی دلاسوں کے بعد رخصت کی اجازت لی۔

اب ہفتہ دس دن بعد اسے کال کر کے ملکی حالات پر بات چیت کر لیتا ہوں۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں