214

بھلا ایک عورت آئینے کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے؟

اُس گھر میں دنیا کی ہر سہولت و آسائش موجود تھی۔ اونچی سیلنگ والے کھلے اور کشادہ کمرے۔ جدید طرز کا فرنیچر۔ خوبصورت لان۔ کھلا اور روشن باورچی خانہ جس میں جدید طرز کے بڑے کوکنگ رینج نسب تھے۔ گھر میں رمشہ کے علاوہ اور بھی لوگ موجود تھے جن کے پاس اپنا اپنا ذاتی کمرہ اور کمرے سے جُڑا ہوا جدید طرز کا اٹیچ باتھ موجود تھا۔

ہر فرد کا کمرہ اس کی پسند کے مطابق آراستہ تھا۔ خوبصورت بیڈ سٹ ، قالین اور پردوں کے ساتھ ساتھ روائتی اور جدید طرز کے سنگھار میز اور آئینہ موجود تھا۔ سب کمروں کا جائزہ لیتی ہوئی رمشہ اب اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کے کمرے میں بھی دوسرے کمروں کی طرح تمام ضروریات و آسائشات کا سامان موجود تھا۔ مگر ایک بات بہت عجیب تھی۔ اس کے کمرے میں سنگھار میز تو موجود تھا مگر کوئی آئینہ نہیں تھا۔ حتٰی کے کمرے کے ساتھ جُڑے باتھ روم میں بھی سنک کے ساتھ کوئی آئینہ نہیں تھا۔وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر دل ہی دل میں کڑھنے لگی۔ گھر کے سب افراد ایک تقریب میں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ 
رمشہ نے خوبصورت لال جوڑا پہنا ہوا تھا۔ وہ خود کو دیکھنے کے لیے ترس رہی تھی۔ کمرے میں ایک شخص موجود تھا جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی وہ گردن اوپر اٹھاتا ہے رمشہ اُمید بھری نظروں سے اُس شخص کی طرف دیکھتی ہے۔ اُس کا دل چاہتا ہے کے اُس شخص سے پوچھے کے وہ کیسی لگ رہی ہے۔ اُس کی آنکھیں کیسی لگ رہی ہیں ؟ اُس کے بال کیسے لگ رہے ہیں؟ کپڑے اس پر کس قدر جچ رہے ہیں ؟ اور اس کے گورے پاؤں کالے کھسے میں کس قدر خوبصورت لگ رہے ہیں ؟ رمشہ چاہتی تھی کی وہ شخص بولتا جائے اور رمشہ سنتی جائے۔ مگر یہ کیا رمشہ نے غور کیا کہ اُس شخص کا چہرہ نہیں تھا۔ بالکل گرم ریپر (Grim reaper) کی طرح۔ چہرے کی جگہ صرف ایک بلیک ہول موجود تھا۔ وہ دیکھ سونگھ، سن یا بول نہیں سکتا تھا۔
رمشہ کو اپنی بےبسی پر بیک وقت ہنسی بھی آئ اور رونا بھی۔ رمشہ اپنا چہرہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر یاداشت پر بہت زور دینے پر بھی اسے اپنے خدوخال یاد نہ آۓ۔ رمشہ خود کو یوں دھیرے دھیرے مکمل طور پر کھو دینے کے خوف سے لرزنے لگتی ہے۔ احساس محرومی کے بوجھ سے تھک کر وہیں بیٹھ جاتی ہے۔ اب رمشہ لکڑی کے دروازے کے باہر کھڑی ساتھ موجود کھڑکی سے کمرے کے اندر جھانکتی ہے۔ وہاں ایک قدِ آدم آئینہ موجود ہے۔ رمشہ اپنا سراپا آئینے میں دیکھنا چاہتی ہے مگر آئینے میں خود کو دیکھنے کے لیے رمشہ کو اس کمرے میں داخل ہونا ہو گا۔ شاید یہ کسی کی خواب گاہ ہے۔ یوں چوری چھپے کسی غیر کی خواب گاہ میں جانے کے احساس سے گھبرا کر رمشہ دروازے سے دور ہٹتی ہوئ اُلٹے قدم اُٹھاتی ہے۔ اور گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ 
رات کا آخری پہر ہے اور رمشہ اپنی خواب گاہ میں موجود ہے۔ پاس ہی رمشہ کی چھے سالہ بیٹی کائنات سو رہی ہے۔ کمرے میں موجود سناٹے میں تنہائی کا احساس گونج رہا ہے۔ رمشہ ابھی تک اس عجیب و غریب خواب کے زیر اثر لرز رہی ہے۔ گلاس میں پانی ڈال کر کچھ گھونٹ حلق میں انڈیلتی ہے۔ اچانک اس کی نظر دیوار پر لگی فیملی فوٹو میں موجود علی کی تصویر پر نظر پڑتی ہے۔ علی جو کے پانچ سال پہلے رمشہ سے شادی کے صرف دو سال بعد ہی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں چل بسا تھا۔ رمشہ خود بھی یتیم تھی اسلیے اپنی یتیم بچی کے ساتھ سسرال میں ہی پڑی رہی۔ جہاں ساس ، سسر، تین دیور ، دو جیٹھ اور ان کے بیوی بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ علی کی فوتگی کے تیسرے سال رمشہ کے ساس سسر نے زبردستی رمشہ کی شادی ساس کی بہن کے بیٹے سے کروا دی جو عاشق مزاج اور آوارہ ہونے کے ساتھ ساتھ کام چور اور نالائق بھی تھا۔ 
وہ روز نئی نئی لڑکیوں کے عشق میں گرفتار ہو جاتا۔ رمشہ کو کبھی نظر بھر کے نہ دیکھتا تھا۔ نہ کبھی رمشہ سے بات کی تھی۔ بلکہ اسے دیکھ کر حقارت سے منہ پھیر لیتا تھا۔ شاید وہ رمشہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس نے اپنی امی اور خالہ کی ضد سے تنگ آ کر رمشہ سے شادی کی تھی۔ وہ رمشہ کے ساتھ ایک کمرے میں تو رہتا تھا مگر بالکل اجنبیوں کی طرح۔ رمشہ کی ساس کے فوت ہو جانے کے بعد یہ دکھاوے کا بندھن بھی ختم ہو گیا۔ رمشہ طلاق لے کر ایک بار پھر علی کے گھر آ گئی۔ رمشہ فیملی فوٹو سے نظریں چُرا لیتی ہے۔ اب وہ کمرے میں موجود لکڑی کے بڑے بھاری بھرکم سنگھار میز کی طرف آتی ہے۔ نائٹ بلب کی روشنی میں سنگھار میز کے آئینے میں خود کو دیکھ کر سوچتی ہے کے یہ کس قدر عجیب خواب تھا۔ 
بھلا ایک عورت آئینے کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے ؟

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Geeza Pro’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px Helvetica; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px Helvetica}

اپنا تبصرہ بھیجیں