221

فیقا گستاخ

فیقے نے ساری زندگی سادگی، ایمانداری اور قناعت سے بسر کی تھی، مزدوری کرتا تھا، روکھی سوکھی کھاتا اور خدا کا شکر ادا کرتا کہ اس نے ہاتھ پاوں سلامت رکھے اور رزقِ حلال کما کر کھانے کی توفیق دی۔

کرنا خدا کا، فیقا دیہاڑی لگاتے ہوئے گو سے گر گیا، کولہے کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی۔ علاج معالجے سے ہڈی تو جڑ گئی لیکن اب پہلے جیسا وزن اٹھانا اس کے بس میں نہ رہا۔ فیقا اکثر خدا کے دربار میں اپنی عرضی پیش کرتا کہ یا خدا، مجھے رزقِ حلال کمانے کی طاقت دوبارہ عطا فرما۔

فیقا زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ہاتھوں بے بس ہوکرمایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے بانس کی طرح بڑھتی بیٹی اور چھوٹا بیٹا گھومتے رہتے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے کمانے کےلئے مختلف طریقوں پر غور کرتا رہتا۔ سوچتے سوچتے ایکدن اس کے دماغ میں ایک چھپاکہ سا ہوا اور اس نے اللہ کا نام لے کر ایک نئے خیال پر کام شروع کر دیا۔

کچھ پرانی اخباریں اس کے گھر پر تھیں، آٹے کی لیٹی بنا کر اس نے تجرباتی طورپر پرانی اخباروں کے لفافے بنانے شروع کیے۔ اس کام میں اس کی بیوی، بیٹی اور بیٹا بھی جت گئے۔ جسے تھوڑا وقت ملتا، وہ اخباریں لے کر بیٹھ جاتا اور لفافے بنانے شروع کر دیتا۔

شروع شروع میں فیقے نے اپنے تیارشدہ لفافے گاؤں کے دکانداروں کو بیچنے شروع کئے، اخباریں جاننے والوں سے مل جاتی تھیں۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن رات کام میں جُتے رہتے، کچھ معقول پیسے ملنا شروع ہو گئے۔ جیسے ہی فیقے کا دماغ بھوکے پیٹ کے اثرات سے نکلا، اس میں نئے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ اس نے اپنی بیوی کے مشورے سے محلے کی کچھ دوسری عورتوں کو بھی اجرت پر ساتھ ملا لیا، اب ہر روز وہ اپنے اخباری لفافے سائیکل پر لاد کر شہر لے جا کر بیچتا اور آتے ہوئے ردی اخباریں خرید لاتا۔

محنت رنگ لا رہی تھی، فیقے کے گھر خوشحالی آ رہی تھی۔ اس نے فریج بھی خرید لیا تھا اور بیٹی کے جہیز کے لیے کچھ بچت کرنا شروع کر دی تھی۔

رنگ پور اتنا بڑا شہر نہ تھا۔ جب فیقے کے لفافے پلاسٹک کے شاپروں سے سستے ملنے لگے تو دکانداروں نے اخباری لفافوں کو شاپروں پر ترجیح دینا شروع کر دی۔ یوں سیٹھ نوردین کا شاپروں کا کاروبار مندے کا شکار ہو گیا۔

ایک طرف سیٹھ نوردین کے مشینیں تھیں جو جیسے ہی بجلی آتی، دھڑا دھڑ شاپر بناتیں تو دوسری طرف برسوں کی بھوک برساتے کوڑے مزدوری کرنے والیوں کو اور کمانے کی مہمیز لگاتے، جن کو بجلی آنے یا جانے سے، دن یا رات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، وہ اخباروں کو لفافوں میں بدلتے رہتے۔ روز کے روز پیسے ملنے سے ان کی آنتوں میں چکنائی اور جسم پر رنگ برنگے کپڑے آئے تو لفافے اور زوروشور سے بننے لگے۔

پانی اب سیٹھ نوردین کی مشینوں کے اوپرآ رہا تھا۔ سیٹھ پریشانی کے عالم میں مرکزی جامعہ پہنچا، جہاں وہ ہرموقع پر اپنی فیاضی اور سخاوت کی دھاک بٹھا چکا تھا، مولوی صاحب بھی سیٹھ کو اٹھ کر ملے اورسیٹھ صاحب کی بپتا سنی۔ مولوی صاحب نے کام کے حساب سے اس دفعہ مدرسے کے لیے دو لاکھ نقد اور کچھ ذاتی گیجٹس جسمیں راڈو کی گھڑی وغیرہ شامل تھیں، کی فرمائش کی اور دو روز بعد ہی سیٹھ تمام انتظامات مکمل کر کے حجرہ پر پہنچ گئے، جہاں مولوی صاحب نے تفصیل سے سیٹھ نوردین کو درپیش مسئلے کے حل پر پُرمغز اور جامع حل پیش کیا، جسے سن کر سیٹھ کا جذبہ ایمانی آخری درجے پر پرواز کر رہا تھا۔

سیٹھ نے عمرہ اداکیا اور واپسی پر اپنے نوردین برانڈ پر “الحاج” کا اضافہ فرمایا اور اپنا اگلا لائحہ عمل زردے کے دیگیں بانٹنے کے ساتھ ساتھ مکمل کر لیا۔

اگلے دن فیقا جیسے ہی سائیکل پر اپنے اخباری لفافے لیکر شہر پہنچا، شہر کی مسجدوں میں منادی ہو رہی تھی کہ فیقا گستاخ ہے، ہمارے مذہبی جذبات کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے اور اخباروں پر اللہ اور اللہ کی پیاری ہستیوں کے نام ہوتے ہیں، اورفیقے کے لفافوں کی وجہ سے ان بابرکت ناموں کی تذلیل ہوتی ہے۔ لفافے استعمال کے بعد لوگ بازاروں میں پھینک دیتے ہیں۔ لوگوں کوخوب بھڑکا دیا گیا تھا۔

سیٹھ کے شاپر دوبارہ بک رہے تھے اور فیقا گھر کی چیزیں بیچ کر ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ لوگوں کو مکمل یقین تھا کہ فیقا محض بابرکت ناموں کی توہین کے سلسلے میں خدا کی پکڑ میں ہے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں