377

بچوں کی تعلیم و تربیت – سب اچھا نہیں قسطِ دوئم- کارِ لاحاصل

“سر، آج جس طرح آپ نے سمجھایا، سلائیڈز دکھائیں، اور ہم لوگوں سے سٹوری کی اوپننگ لکھوا کر آن دا سپاٹ فیڈ بیک دیا، یقین جانیں دل چاہ رہا تھا آج یہ کلاس ختم ہی نہ ہو۔ کم از کم بھی ایک گھنٹہ ہی اور مل جاتا اور ہم اسی فلو میں چار سو لفظوں کی یہ کہانی ختم کر لیتے جسے peer review کرتے ہوئےایکدوسرے کوتھوڑا فیڈ بیک بھی دے لیتے۔ اب گھر جا کر اس پر دوبارہ سے کانسنٹریٹ کرنا بہت بورنگ لگے گا۔ ٹائم بھی کب ملے گا، سر! فائیو او کلاک پر میتھس ٹیوٹر نے آ جانا ہے۔۔۔”

پہلا پیریڈ ختم ہوتے ہی دو بچیاں لپک کر میرے پاس آئی تھیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی، میری پریزنٹیشن بہت کامیاب رہی، بچوں نے انجوائے کیا، مگر حسبِ معمول خون کا گھونٹ بھر کر ، تھینک یُو کہتے ہوئے، میں تیزی سے کھسک لیا کہ اگلی کلاس میں پہنچ کر پوزیشن لینا تھی۔یہ دس برس پہلے کی بات ہے۔ آج بھی وہی روٹین ہے۔ صد فی صد وہی روٹین۔ یہ کسی ایک سکول کیساتھ مخصوص نہیں، ہر ادارہ اسی پیٹرن پر چلے جا رہا۔

یہ ہے وہ سانسیں پھلائے رکھنے والی افراتفری ۔ چل چلاؤ پر مبنی بے رحم نظام جو بچوں میں سکِلز ڈویلیپ نہیں ہونے دیتا۔ بچوں کے لیے عالمی ادارہ یونیسکو نے رپورٹ دی ہے کہ 78 فیصد ٹین ایجرز تعلیمی اداروں سے بنیادی سکِلز ڈویلیپ کیے بنا باہر آجاتے ہیں۔

کسی کلاس میں آپ چوتھے پیریڈ میں داخل ہوں تو کوئی بچہ ٹیچر کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا، اپنی سیٹ پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔جن بچوں نے چار پیریڈز لگا تار پڑھے ہیں، وہ ذرا دم رُکنا، اپنی سانسیں بحال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر “سسٹم” اجازت نہیں دیتا۔اُدھر ٹیچر پر جنون سوار ہے کہ بچے کسی طور سکون سے بیٹھ جائیں، جو آئیٹم اسے انڈیلنا ہے، انڈیل سکے، کاروائی کسی طرح پوری ہو جائے۔ایسے میں کوئی بچہ بے صبر ہو جائے، ہینکی پھینکی کر لے تو وہ شرارتی، گستاخ ، اَن ڈسپلنڈ وغیرہ۔

آگے سنیں، جب سکول میں حالات یہ ہیں، تو ظاہر ہے بچے کو اپنی شامیں الگ سے قربان کرنا ہوں گی۔ کسی ٹیوشن سنٹر میں یا گھر پر ٹیوٹر بلا کر۔ان میں سے بیشتر بچوں کے پاس اپنی دلچسپی کی کتابیں پڑھنے کو وقت نہیں۔اور جو کتابیں لازمی نصاب قرار دیکر زبردستی پڑھائی جا رہیں، انہیں وہ پڑھنا نہیں چاہتے۔۔۔ جوئے شیروتیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی۔ یہ ایجوکیشن ہے؟

یہ ہے آپ کا تعلیمی نظام! جسے ناچیز نے ایجوکیشنل چائلڈ لیبر کا نام دیا تھا – اپنے اُس آرٹیکل میں جو دانش سائٹ پر پچھلے برس چھپ کر کافی پذیرائی وصول چکا۔ایک ننھی جان کے لیے تعلیم کو یوں بوجھ بنایا جائے گا تو اس معصوم کو کتاب اور تعلیم سے نفرت نہ ہو تو کیا ہو؟

ایسا کیوں ممکن نہیں کہ :

1-جس میتھس ٹیچر نے اگلی صبح پہلا لیسن دینا ہے، اس کا لیسن پلان کسی کوآرڈینیٹر کے ساتھ پورے کا پورا ڈِسکس ہو۔اس میں دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کو پورا تردّد کیا جائے۔ دو دماغ مل کر بیٹھیں تو سوچی ہوئی بات یا منصوبے میں کیسی flawless پرفیکشن آ جائے۔

2- اگلی صبح یہ دیکھ کر کہ بچوں نے بہترین فالو کیا ہے، اور انسٹرکشنز کیساتھ ساتھ پروڈکشن فیز میں اپنی لرننگ کا بھرپور مظاہرہ کر رہے، انجوائے کر رہے ہیں، اسی ٹیچر کو پچاس ساٹھ منٹس جاری رکھنے کا اختیار دے دیا جائے۔ یہ لچک پن کیوں ممکن نہیں؟

3- گھنٹہ ڈیڑھ بھر کی ہیومن برین ایکٹویٹی اب 20 یا 25 منٹس کا وقفہ چاہتی ہے ۔ بچے باہر گراؤنڈ کا چکر لگا لیں۔بعضوں نے ناشتہ نہیں کر رکھا، کچھ کھا پی لیں، تب نئی کلاس کا آغاز ہو۔جیسا کہ فِن لینڈ ایجوکیشن ماڈل میں یہ عملاً ہوتا ہے۔وہاں تو ادارے بھی صبح 9 بجے کھلتے ہیں، اور اسی طرح جاپان اور انگلینڈ وغیرہ میں بھی۔آخر ایسی کونسی آفت آئی ہے کہ بچہ صبح 6:30 بجے اٹھ کر وین میں بیٹھ جائے، جو اس نیم بیدار کو پہلے گلیوں گلیوں گھمائے، تب سکول گیٹ پر اتارے۔ اور ایسی کیا مجبوری ہے کہ آپ لوگوں نے بہرصورت ان بچوں اور اساتذہ کو ایک ہی دن میں 8 پیریڈز کا انجیکشن ٹھونکنا ہے؟

اس طریقہ تعلیم ، رفتارِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کو 30 برس کلاس روم سیچوئیشن میں بھگتنے ، اس پر کڑھنے والے جان ٹیلر گاٹو نے اپنی کتاب Dumbing us down میں لکھا:

“تعلیمی عمل میں سے آزادی و خود مختاری کا عنصر اُچک لیں۔اب جو باقی بچا، اُسے سکولِنگ کہتے ہیں۔”

گویا خلّاق ذہانتوں کی مالک اس مخلوق کو کلاس رُومز نام کے چھوٹے چھوٹے cells یا قید خانوں میں جکڑ کر چند ایک فارمولاز ، ڈیفی نیشنز رَٹوا کر ، کچھ مختصر اور کچھ طویل مواد از بر کر انا اور امتحانی پرچے حل کرانے کے قابل بنانا سکُولنگ ہے۔اس میں امیر اور غریب کا بچہ ایک سا قیدی، ایک سا مظلوم ہے۔ امیر بچے کے لیے تو پھر تھوڑی راحت کا سامان ہے – لش پش گاڑی میں بیٹھ بیٹھ سفر کرنا، ایئر کنڈیشنڈ گھر سے نکل کر ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں سفر کرنا، ایئر کنڈیشنڈ کلاس رومزمیں بیٹھ کر، صاف ستھرے ماحول میں، 25 سے 30 طلبہ پر مشتمل کم تعداد والی کلاس میں وقت گزار نا۔ جہاں پڑھانے والے بھی نسبتاً بہتر لوگ دستیاب ہیں۔کسی سَمر یا وِنٹر بریک میں دبئی، ملیشیا ، ٹورنٹو، سڈنی وغیرہ کا ٹرپ بھی لگ جایا کرتا ہے۔غریب اور مڈل کلاس کے لیے کیا ہے؟ حالات آپ کے سامنے ہیں۔

جان ٹیلر گاٹو لکھتا ہے:

“اپنے تیس سالہ تدریسی دور میں میں نے یہ بات بہ شدّت نوٹ کی ہے کہ سکول اور سکولنگ بتدریج زندگی کے اُن ہنگاموں یا عظیم انٹر پرائزز سے کٹتے یا غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں جو اس planet پر جاری ہیں۔اب اس بات پر کسی کا اعتقاد نہیں کہ سائنسدان سکولوں میں برپا سائنس کلاسز سے پیدا ہو رہے، یا یہ کہ سیاستدان سِوکس مضمون پر انڈیلے جاتے اسباق سے اٹھ رہے، یا یہ کہ شاعر لوگ لینگویج کلاسز کی پیداوار ہیں۔یہ ایک سفاک حقیقت ہے کہ سکولز آپ کے بچے کو کچھ بھی نہیں دیتے سوائے اس کے کہ ہاؤ ٹُو اوبے آرڈرز how to obey orders ۔ اگرچہ اساتذہ بہت محنت کرتے ہیں، مگر ادارے psychopathic ہیں – یعنی بس اپنے جنون اور بہاؤ میں بہے جاتے۔ایک ادارہ اپنے اندر شعور ، ہوشمندی اور ضمیر نام کی کوئی شے نہیں رکھتا۔اسے تو بس گجنٹی بجا دینے سے غرض ہے ، عین اس وقت جب ایک ینگ مین کسی کلاس روم میں بیٹھا کوئی نظم یا مضمون لکھنے میں مصروفِ عمل ہے ۔ اسے بہرصورت اپنی نوٹ بُک بند کرنا ہے ، کسی اور قید خانے کی جانب دوڑ لگانا ہےجہاں اسے factsکا ایک نیا پلندہ اَزبر کرنا ہے -کہ انسانوں اور بندروں کے اجداد اصل میں ایک ہی تھے۔

بچے وہی سیکھتے ہیں جو ان پر بیت رہی ہوتی ہے۔انہیں ایک کمرہِ جماعت میں بند کر دو، وہ جہان بھر سے کٹ کرایک قید خانے کی زندگی گزاریں گے، اور ایسا ہی مزاج پائیں گے۔ انہیں bells and horns کیساتھ بار بار interrupt کرو، وہ یہی سیکھیں گے کہ کچھ بھی اہم نہیں، کچھ بھی worth finishing نہیں، اور اپنا کام ہمیشہ unfinished یا ادھورا چھوڑ دینے میں کوئی قباحت نہ پائیں گے۔یہ فینامینن ان کا ایک مستقل وطیرہ بن جائے گا۔غلطی سے جسے ہم لوگ تعلیمی نظام سمجھ بیٹھے ہیں، وہ سوچ بچار کے تمام آپشنز بند کر کے اِس بات پر اندھا اعتقاد قائم کر لینا ہے کہ

There is ONE RIGHT WAY to proceed with growing up.

یعنی بچوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے ضمن میں ایک ہی واحد راستہ ہے، جو درست ہے۔”

ذرا سوچیں، ایک ایسی ٹیچر جس کی بچوں کیساتھ کوئی ایسوسی ایشن نہیں ہوتی، اور جسے 30 سے 35 یا 50 بچوں کی کلاس پکڑا دی گئی ہے،اس کا کل سکون فقط اس تصور میں قید ہوتا ہے کہ کسی طرح بچے سکون سے بیٹھ کر بات سن لیں، اور ایک آدھ صفحہ اپنی کاپیز میں بھر لیں، تا کہ ایڈمنسٹریشن اور والدین دیکھ لیں کہ اگلا آئیٹم ہو گیا۔بیچاری کا آدھا وقت بچوں کو چپ کرانے میں گزر جاتا ہے۔ بالفرض مضمون میتھس ہے تو بمشکل ایک یا دو سوال ہو پائیں گے: “یُو گاٹ مائی پوائنٹ؟” چار پانچ بچے چلّا کر کہہ دیں گے، “یس میم!” ان کی دیکھا دیکھی باقی بھی سر ہلا دیں گے۔ چلو جی، باقی کی ایکسرسائز گھر سے کر کے لاؤ۔ گھر میں کون کرائے؟ ٹیوشن سنٹر جاؤ یا ٹیوٹر کو بلاؤ۔۔۔

تعلیم کیا ہے؟ کہ وہ ہر بچے کو اس کا unique individual کسی طور عطا کر دے، اور بس! نہ کہ اسے conformist بنا کر چابی والے ایک کھلونے کے بطور چھوڑ دے۔تعلیم کا فرض بچے کو وہ اوریجنل سپرٹ عطا کرنا ہے جسے ساتھ لیے وہ چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔ایسی تعلیم جو بچے کو اِس قابل بنائے کہ وہ اپنی ذاتِ گرامی کے لیے ایک set of values کا تعیّن کر سکے۔وہ قدریں جو اس بچے کے لیے تگ و تازِ حیات کرنے میں روڈ میپ کا کام دے سکیں۔ ہم ہزاروں میں سے کسی ایک کو جینیئس خیال کر لیا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

جینیئس ہونا، یعنی سُوپر برین کا حامل ہونا ایک مشترک انسانی صفت ہےجو سب لوگوں میں برابر پائی جاتی ہے، اگر چہ تھوڑی ورائٹی والے انداز میں۔میری جینیئس زبان دانی میں سکون پاتی ہے تو کسی اور کی تعمیر سازی کے کام میں۔اسی طرح، اردو اور انگریزی کے لازمی نصاب میں فیل ہو جانے والا طالب علم عین ممکن ہے الیکٹرونکس کی دنیا میں اپنی جینیئس کا اظہار فرمائے اور خاصی ہل چل مچا دے۔ خود اچھا روزگار بھی کمائے اور ددوسروں کے لیے خوب نفع بخش بھی ہو۔

آپ ذرا غور فرمائیں، کم و بیش سارے کے سارے نامور شعرا، سائنسدان، انجینیئرز، مذہبی سکالزر ہوں یا سماجیات اور عمرانیات کے اصول و ضوابط پیش کرتی ذہانتیں، ان میں سے بیشتر ناموں کیساتھ traditional schooling نظر نہیں آتی ۔

مارک ٹوین نے کہا تھا: ‘میں نے سکُولنگ کو اپنی ایجوکیشن کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔”

گویا عمدہ تعلیم کا بغیر سکُولنگ کے میسر آنا ممکن ہے ، اور سکُولنگ کا بغیر تعلیم کے میسر آنا بھی اتنا ہی ممکن ۔

اور سنیں، جو بچہ عمدہ مضمون نہ لکھ سکے، اس میں بلا کے طاقتور الفاظ اور جملوں کے لیے impressive structures نہ گھسیڑ سکے، آپ اسے نالائق، غبی یا کند ذہن ہی کہیں گے نا؟ جو شاید بیس برس بھی لینگویج پڑھتا رہے تو اے گریڈ مضمون نہ لکھ پائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ آپ ہاتھی، مچھلی، زرافہ، فاختہ، بندر، اور گینڈے سے یکلخت یہ تقاضا کریں کہ آپ سب نے اسی درخت پر چڑھ کر دکھانا ہے۔ جو نہ چڑھ سکے، وہ فیل ہوا۔اگر آپ کی فیئر سلیکشن کا معیار یہی ہے تو اس میں اُن امیدواروں کا کیاقصور جو غلطی سے بندر کی بجائے کچھ اور پیدا ہو گئے؟ آپ کے سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹس ، شومئی قسمت، یہی تقاضا کرتے اور کروڑہا بچوں کو مایوس کیا کرتے ہیں۔ امریکہ میں 22 فیصد بچے ڈراپ آؤٹ ہو جاتے اور ہائی سکول تک کی ایجوکیشن مکمل نہیں کر پاتے۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کیمطابق انڈیا میں اس سطح پر ڈراپ آؤٹ ریٹ 34 فیصد جبکہ روزنامہ ڈان کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں اس سطح کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 44 فیصد ہے۔حیرت ہے، دنیا میں خود کشیوں کی تعداد اسقدر کم کیوں ہے؟ انسان کا بچہ بڑا ہی ڈھیٹ واقع ہوا ہے۔ پاکستان میں 5 سے 16 برس کی عمر کے بچوں میں سے 44 فیصد بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔

جس بچے کو کیمسٹری کے فارمولے رٹوائے جا رہے ہیں، وہ آرٹ ، کھیل، اور مہم جوئی کیلئے بنا ہے۔ممکن ہے ، اس کا وہ قیمتی وقت ایڈونچر پر لکھی کتاب کیساتھ گزرے تو زیادہ تر ثمر بار ہو۔اسے یہ آزادی کیوں نصیب نہیں؟ اس کے ہاں یہ unique individuality کون دریافت کرے گا، سراہے گا، اور ہمت بندھائے گا؟

اکثریت کی بات کریں تو کہا سکتا ہے کہ اس نوع کی traditional schooling میں ڈسا جا رہا آپ کا بچہ ہر روز یہ بوجھ اٹھائے، بھاری قدموں پلٹ آتا ہے کہ میں تو اس قا بل نہیں۔ میرا ذہن اچھا نہیں۔ مجھے میتھس کی سمجھ نہیں آئی، فلاں فلاں کو آ گئی تھی۔ میں کلاس میں سب کے سامنے سٹوری نہیں سنا سکا، فلاں اور فلاں نے سنا دی تھی ۔۔۔ کیا ٹیچر کے پاس اتنا وقت ہے جو آپ کے بچے کو الگ سے ٹرِیٹ کر سکے؟ اس کی ہمّت بندھا سکے؟ اس مسخ شدہ شخصیت کیساتھ ، زندہ لاش بنے وہ بچہ روز سکول آ جا رہا ہے۔ خدارا اس کی معصوم دنیا کا احساس کرو! ۔۔۔۔۔

آخر میں ایک بار پھر ، جان ٹیلر گاٹو کی کتاب میں سے ایک خوبصورت اقتباس:

“آزادنہ طرز کا مطالعہ، کمیونٹی سروس میں شمولیت، مہم جوئی اور اس دوران تجربہ ومشاہدہ، پرائیویسی اور تنہائی کے طویل وقفے،یعنی بچے کو اپنے ساتھ وقت گذارنے کے مواقع میسر آئیں، بیسیوں رنگا رنگ قسم کی apprenticeships ، یکسانیت کو توڑتی ہوئی ورائٹی کا اہتمام ۔۔۔ یہ ہیں وہ طاقتور، سستے، زیادہ تر موثر طریقےجن سے سکولنگ کو ریفارم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایسی ریفارمنگ کیسی ہی بڑے سکیل میں کیوں نہ برپا ہو جائے، قطعی بے سود ہو گی جب تک اس سارے عمل میں والدین کی شمولیت کو کسی طور ممکن نہ بنایا جائے۔”

(جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں