302

اپوزیشن گردی

پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ اپوزیشن اورحکومت کا گٹھ جوڑ ہوتا رہا ہے عوام کو دکھانے کے لیے شور شرابہ ضرور کرتے ہیں مگر اندر سے سب کے مفادات ایک ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایک دوسروں کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بھی بنایا گیا، مگر پچھلے دس سال میں جیسے حکومت اور اپوزیشن رہی وہ سب نے دیکھا کتنی دوستانہ تھی اور مل کر جہاں موقع ملے کی بنیاد پر آدھا تیرا آدھا میرا کرکے ملک کو لوٹ لیا گیا۔ ایک دوسرے کیخلاف کرپشن کے تمام کیسز کو دباتے رہے اور اداروں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے جس سے تمام ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں، صرف یہی نہیں تمام اداروں کے سربراہان بھی اپنے ذاتی ملازم لگادیئے اور ان سے مرضی کے فیصلے لئیے گئے۔

جب یہ حکومت تبدیل ہوگئی اور تیسری پارٹی اقتدار میں آئی تو پھر دونوں جماعتوں نے بھرپور اپوزیشن گردی شروع کردی،  جس میں بلاوجہ اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرنا اور اجلاس کے دوران شور شرابہ کرنا عوام سےحکومت کیخلاف جھوٹ بول کر گمراہ کرنا اور میڈیا کے اپنے لفافیوں کی مدد سے پروپیگنڈے کرنا شامل ہیں۔ اب حالیہ آئی ایم ایف پروگرام پر انکی منافقت ملاحظہ فرمائیں کس طرح عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ 24 واں پروگرام ہے جس میں 23 پچھلے شریف زادوں زرداریوں اور فوجیوں نے لیے صرف ایک ابھی عمران خان لینے جارہا ہے وہ بھی پچھلے 23بار لیے گئے قرضے واپس کرنے لیے بے شرم لوگ اب کیسے تنقید کر سکتے ہیں جو خود ملک کو اتنا مقروض کر گیئے۔

عمران خان نے ضرور کہا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا لیکن 23 بار لینے والوں نے قرضے اتنے چڑھا دیئے اور تمام ادارے خسارے میں چھوڑ دیے جس کی وجہ سے مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا مگر اب وہ لوگ بھی آئی ایم ایف کی گردان پڑھتے نہیں تھکتے، جب پچھلے 23 بار قرضے لیے گئے تھے تو اس وقت انکو آئی ایم ایف کی مخفف کا بھی پتہ نہیں تھا سارے ستوں پی کر سو گئے تھے۔ میڈیا کے وہ تمام فلاسفر اور ارسطو اب کھل کے بےنقاب ہورہے ہیں جو صحافت کے لبادے میں اصلی طور پر،  پٹواری، جیالے اور جماعتی کارکنان تھے جو روزانہ کی بنیاد پر پروپیگنڈے اور سوچی سمجھی تنقید اور مخالف جماعت کی حمایت ایسے کر رہے ہوتے تھے جیسے انکو اس کام کے لیے ٹی وی پر رکھا گیا ہو۔

ایک جماعت کا سربراہ کرپشن کے جرم میں سزا پاکر جیل میں ہے انکے سابق وزیر خزانہ ملکی عدالتوں سے اشتہاری اور مفرور ہیں وہ بھی آئی ایم ایف کو اسمبلی میں لانے کے مطالبے اور تنقید کر رہے ہیں ایسے کہ جیسا انہوں نے اپنے دور میں جتنے معاہدے کیئے چاہیے چائنہ سے سی پیک کا ہو یا آئی ایم ایف سے ہو سب اسمبلی سے منظور کرائے ہوں۔ دوسری طرف وہ بغل بچہ بھی تنقید کر رہا جس کے پمپر بھی جعلی اکاؤنٹس سے خریدے گئے جنکی تعلیم بھی کرپشن کے پیسوں سے ہوئی ،جنکی بیرون اندرون ملک سفر کے ٹکٹس بھی اس جعلی اکاؤنٹ سے بنے جس سے آیان علی کے سفری ٹکٹس بنے، دنیا کی وہ کونسی جمہوریت ہے جہاں ماں کی وفات کے بعد بیٹا وصیت کی بنیاد پر پارٹی کا سربراہ بنے شوہر شریک چئیرمین بنے؟

کچھ جماعتوں نے پوری عمر 10 سے زیادہ سیٹیں نہیں جیتیں اس بار خود اپنے آبائی حلقوں سے ہار گئے ہے تو وہ بھی حکومت سے استعفے کی بات کر رہے ہیں اور جب انکے وقت یہی آئی ایم ایف سے قرضے لیے جارہے تھے، تو اس وہ وقت وزرات و دیگر حکومتی عہدوں کے مزے لے رہے تھے سب کے منہ کو تالے لگے ہوئے اب انکو آئی ایم ایف کی فکر اور عوام کی فکر ستا رہی ہیں۔ اب بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے چاہیے جس شرط پر بھی پیسے لیے جائینگے یقین یہی ہے کہ وہ پیسے عوام پر خرچ ہونگے کسی جعلی اکاؤنٹ اور لندن میں فلیٹس خریدنے کے لیے استعمال نہیں ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں