364

اپنے وطن میں غریب الوطن۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

علامہ محمد اقبال کے استاد داغ دہلوی کا یہ شعر اس زبان کے بارے میں ہے کہ جو آج دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ پوری دنیا میں آج اس کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں ۔ اردو کی ابتداء سات آٹھ سو برس قبل شمالی ہند کی بولیوں اور عربی و فارسی زبان کے ملاپ سے ہوئی ۔ اردو زبان ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں لشکر اس لئے اس زبان کو لشکری زبان کہا جاتا ہے۔

اس میں سات سو سے زائد عربی اور چھ سو سے زائد فارسی الفاظ ہیں۔ اردو زبان نے اپنے بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے ہر میدان ادب میں کافی ذخیرہ جمع کر رکھا ہے چاہے وہ شاعری ہو ، ناول ہو، ڈرامہ ہو ، افسانہ ہو یا کوئی اور صنف۔ اردو کے دامن میں شوقین حضرات کے لئے وافر سرمایہ موجود ہے۔ اردو کا باوا آدم امیر خسرو کو کہا جاتا ہے جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تھے جن کی پہلیاں اور گیت آج بھی اسی طرح کانوں میں رس گھولتے ہیں جیسے اس وقت مقبول و معروف تھے۔

اردو مختلف علاقوں اور ادوار میں مختلف ناموں سے جانی پہچانی گئی۔ جیسے ہندی، ہندوی، گجروی، دکنی اور ریختہ۔ اردو کو عظیم شعراء کرام نے اپنی شاعری کے لئے پسند کیا جن میں ولی دکنی میر تقی میر، ابراہیم ذوق، سودا، مومن خان مومن، غالب، میر انیس، نظیر اکبر آبادی جنہیں اردونظم کا باواآدم بھی کہا جاتا ہے، علامہ محمد اقبال، الطاف حسین حالی وغیرہ ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اردو کی اس قدر خدمت کی کہ اپنا آپ تک بھلا دیا۔ انہوں نے صرف اس وجہ سے ازدواجی زندگی کی قربانی دی کہ پھر وہ گھریلو ذمہ داریوں کے سبب اردو کے لئے وہ کام نہیں کر پائیں گے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ اردو نثر نگاروں میں اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں جنہوں نے ناول مراۃالعروس لکھ کر اردو ادب میں ناول کی کمی کو نہ صرف پورا کردیا بلکہ ایسا سرمایہ عطا کردیا جو لا زوال ہے۔ غرض اردو جیسے نوزائیدہ پودے کی ہر ادیب و شاعر نے مالی کی طرح پرورش کی اور اپنی محنتوں ، ریاضتوں اور قربانیوں کے ذریعے اسے اس طرح سینچا کہ آج یہ اردو کا درخت پوری دنیا پہ سایہ فگن ہے اور اپنے بولنے اور سمجھنے والوں کو فیض یاب کر رہا ہے۔

اردو کے اس تعارف کے بعد اس کی اپنے وطن پاکستان میں موجودہ حالت کے بارے میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اردو جس کی آبیاری میں اتنے عظیم لوگوں کا خون پسینہ شامل ہے اور اس قدر وسیع الدامن اور اتنی دولت ادب سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے پیارے وطن پاکستان میں جہاں اس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم کے باعث اسے قومی زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے ۔ آج غریب الوطن ہے۔ جو سلوک اس زبان کے ساتھ اس کے اپنے وطن میں ہو رہا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ آج غالب و اقبال کی غزلوں اور نظموں کے سننے اور سمجھنے والے نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ ہم نے اپنی زبان چھوڑ کے انگریزی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ہم انگریزی ادب کو پڑھنا باعث فخر سمجھتے ہیں اگر چہ پڑھنے میں کوئی برائی نہیں مگر صرف اسی کو پڑھنا اور اپنے ادب کو حقیر جان کر یا مشکل سمجھ کر ترک کردینا ضرور برائی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کو اب تک سرکاری زبان کا درجہ نہ ملنا ہے جب کہ اس بابت سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے مگر ہماری سرکار اب تک انگریز سرکار کے اثر سے خود کو آزاد نہ کروا سکی جس کی وجہ سے اردو آج بھی سرکاری زبان کے مقام کے انتظار میں ہے۔ اگر اردو سرکاری زبان ہوتی اور تمام تر دفتری خط و کتابت اردو میں ہوتی تو لوگ آج اردو سے اتنے بےگانہ نہ ہوتے۔ کیوں کہ کارِسرکار سے ہر کسی کا سابقہ پڑتا ہے۔ یہاں میں خلیجی ممالک کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں تمام سرکاری دستاویزات عربی زبان میں تیار کی جاتی ہیں۔ اس لئے لوگ اپنی زبان سے مسلسل متصل ہیں۔

اگر آج ہم بھی اردو کو سرکاری زبان بناتے تو لوگ اردو کے لئے اتنے ہی سرگرم ہوتے جتنے آج انگلش کے لئے ہیں۔ دوسری اہم وجہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو سے پہلوتہی اور انگریزی زبان میں تعلیم و تدریس کا عمل ہے جس کے باعث ہمارے نوجوان فرفر انگریزی تو بولتے نظر آتے ہیں مگر ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ نواسی ، اناسی، اکہتر کیا ہوتے ہیں ان کو سمجھ تب آتی ہے جب ان اعداد کو انگریزی میں بتایا جائے۔ کسی کے علم اور قابلیت کا اندازہ انگریزی زبان میں بات چیت سے لگایا جاتا ہے گویا جو اردو میں بات کر رہا ہو وہ تعلیم یافتہ ہے ہی نہیں۔ ہم اپنی زبان کو چھوڑ کر انگریزی زبان میں بات کرنا فخر سمجھتے ہیں جس کی ایک وجہ اپنی قابلیت کا رعب دوسروں پہ جمانا مقصود ہوتا ہے یعنی قابلیت کا معیار انگریزی زبان ٹھہر گیا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک دیکھ لیں تو ان کی ترقی کی بنیاد ان کا تعلیمی نظام ہے اور وہ ان کی قومی زبان میں ہی رائج ہے ۔ ہم بد قسمتی سے آج تک فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ہم کیا ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں ہماری ساری زندگی دوسروں کے چلن اپناتے گزرتی ہے۔ نہ ہمیں اپنا وطن اچھا لگتا ہے نہ اس کی زبان۔ آپ زیر تعلیم نوجوان ، نوکری پیشہ ، کاروباری افراد سے بات کر کے دیکھ لیں زیادہ تر افرادآپ کو اس وطن سے بیزار اور اردو زبان سے اتنے واقف نظر آئیں گے کہ آپ کو خو د افسوس ہی ہوگا۔

ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی اور اب تو ٹی وی چینل پر بھی کہ جسے کروڑوں لوگ روزانہ دیکھتے اور سنتے ہیں غلط اردو بولتی نظر آتی ہے ۔ ٹی وی چینل پر لکھی ہوئی نیوز میں املاء کی بے شمار غلطیاں ملتی ہیں ۔ ہم اپنی زبان سے ناواقفیت کی بناء پر پڑوسی ملک سے آنے والی زبان جو قطعی طور پر اردو نہیں بلکہ اردو کا چربہ ہے کی اتباع کرتے نظر آتے ہیں ہندی ڈراموں نے جہاں ہمارے گھر گھر میں سازش کی کھیتی بوئی ہے وہاں اردو کا بھی قتل عام بڑی سفاکی سے کیا ہے ۔ ایک چھوٹی سی مثال کہ ہم اردو میں جب کسی کام کو اچھی طرح سر انجام دینے کا کہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ (یہ کام اچھی طرح سے کرنا )، ہندی ڈراموں میں اس جملے سے لفظ (طرح) حذف کر کے اسے صرف اچھے سے کردیا یعنی (یہ کام اچھے سے کرنا ) ۔ یہ بھی ہمارے ملک میں فی الفور رائج ہو گیااب آپ کو کوئی شاید ہی (اچھی طرح سے) بولتا ہوا نظر آئے ورنہ زیادہ تر لوگ وہی انڈیا میڈ اردو بولتے نظر آئیں گے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اردو کو دی جانے والی اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو کسی کالج کے طالب علم سے اردو میں کچھ لکھوا لیجئے اس کا املاء آپ کو سب کچھ بتا دے گا۔ میری خود ایک کالج کے طالب علم سے ملاقات ہوئی میں نے اس سے اردو کے متعلق کچھ سوالات کئے اس نے جو ہوشربا جوابات دئیے انہیں سن کر میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ مثال کے طور پر اردو کس زبان کا لفظ ہے جواب آیا ! اردو کا۔ سابقے اور لاحقے کیا ہوتے ہیں تو جواب آیا کہ فکر لاحق ہونا تو سنا ہے لاحقے کا معلوم نہیں۔ بابائے اردو کون تھے تو جواب آیا بابائے قوم تو قائد اعظم تھے اردو کا معلوم نہیں۔

پڑوسی ملک کی اس یلغار کہ جس نے ہماری ثقافت کو تہہ تیغ تو کیا ہماری زبان کی بھی دھجیاں بکھیر دیں کو کون روکے گا۔ ہم کیوں اپنے دشمن بن گئے ہیں۔ کیوں سونیا گاندھی کو کہنا پڑا کہ ہمیں پاکستان سے کوئی جنگ کرنے کی اب ضرورت نہیں کیوں کہ ثقافتی جنگ ہم جیت چکے ہیں پاکستان کا نوجوان ہماری بتائی ہوئی بولی بولتا ہے۔ پاکستان کے ہر میوزک پروگرام میں ہمارے گیت گائے اور سنے جاتے ہیں۔ ہمارے ملبوسات پہنے اوڑھے جاتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے اور فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنی ثقافت اور زبان سے دور ہو رہے ہیں۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے ہمیشہ کی طرح حکومت یا ہم سب کہ جن کو نہ پاکستانی ہونے پہ فخر ہے نہ اپنی زبان پر۔ یا وہ ارباب اختیار جنہوں نے پڑوسی ملک کی اس یلغار کو روکنے میں نہ صرف پہلو تہی کی بلکہ اپنی زبان کے رواج کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کی۔

یاد رکھیں تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوْں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر نہ صرف ظلم و ستم کئے بلکہ ان سے ان کی شناخت چھین لینے کی بھی کوشش کی۔ ان کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ اپنا دین اور زبان ترک کردیں اور ان کے زبان و مذہب کو قبول کرلیں ۔ یہاں یہ مقصد ہرگز نہ لیا جائے کہ انگریزی زبان کا مکمل انکار کردیا جائے اور نہ سیکھی جائے ہمیں اس وقت اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سر سید احمد خان نے اپنائی تھی۔ انہوں نے انگریزی بھی سیکھنے پر زور دیا مگر اردو کو آج کی طرح پس پشت بھی نہیں ڈالا بلکہ کوشش کی کہ اردو میں بھی اتنا مواد اور طاقت پیدا کردی جائے کہ وہ کسی بھی زبان کا مقابلہ کرسکے۔ آج ہمیں بھی اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہر وہ مضمون جو ہماری تعلیم کے لئے ضروری ہے اس کا ترجمہ اردو میں ہو تحقیق کار، سائنسدان، انجینیئرز، ڈاکٹرز، غرض زندگی کے تمام ماہر شعبہ جات اپنی تصانیف اردو میں تحریر کریں ۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے آج بفضل خدا ہم بظاہر تو آزاد ہیں آج ہم پہ وہ سختیاں اور مجبوریا ں تو نہیں ہیں مگر ہم خود ذہنی طور پر اس قدر غلام ہو چکے ہیں کہ ان دونوں کے اثر و نفوذکو خوش آمدید کہہ کر گلے لگا رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنی زبان سے محبت کریں اسے ملک میں سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جاسکے اور تعلیمی نظام کو اردو میں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اردو سے واقف رہ سکیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

تعارف: سید علی اکبر عابدی، حیدرآباد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ بورڈ آف ریونیو میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں