298

عائشہ گلالئی، ملالہ سیریز ٹو کی ماسٹر مائنڈ۔

آج تحریکِ انصاف کی خصوصی نشست پر رکھی گئی رکن قومی اسمبلی محترمہ عائشہ گلالئی نے اچانک عمران خان کو بدکردار شخص قرار دے کر چند مزید سنگین الزامات کے ساتھ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کی، موصوفہ نے ایک گھنٹے میں جس تیز رفتاری سے ایک درجن چینلز پر ایک ہی سکرپٹ سنائی ، اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مصطفیٰ کمال سے زیادہ ضمیر جاگا ہے، پارٹی معاملات پی ٹی آئی والے جانیں، عمران خان، نعیم الحق اور عائشہ گلالئی جانے ، لیکن عائشہ صاحبہ اک تعلق جس علاقے سے ہے، ان لوگوں سے مجھے فی سبیل اللہ دلی محبت ہے، ان کا تعلق ساوتھ وزیرستان سے ہے، موصوفہ نے ایک بات پر بہت زور دیا کہ “عمران خان مغربی کلچر کو پاکستان میں فروغ دے رہے ہیں” ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ “کچھ دو نمبر لوگ خود کو پٹھان کہتے ہیں” اس بات پر کچھ دیر میں نے غور کیا، اور فیصلہ کیا کہ بات اگر پٹھانیت کی ہے تو پھر ذرا لکھ دی جائے، عائشہ گلالئی صاحبہ وزیرستان کی تاریخ کی پہلی رکن اسمبلی بنیں، یہ اعزاز انہیں عمران خان نے دیا، جبکہ وزیرستان میں عورت کا ووٹ ڈالنا بھی ایک شرم سمجھا جاتا ہے، کجا یہ کہ ایک عورت الیکشن لڑے، یا رکن اسمبلی بنے، تو یہاں سے اندازہ ہوجانا چاہیئے کہ ان کی “پختونولی” کتنی اپڈیٹڈ ہے۔

میں جس اصل نکتے کی جانب آنا چاہ رہا ہوں ، وہ یہ کہ مغربی کلچر کا شور شرابا کرنے والی عائشہ گلالئی وزیر صاحبہ کا اپنا گھرانہ مغربی تہذیب کا عکاس ہے، ان صاحبہ کے والد کو آپ ضیاء الدین یوسفزئی پارٹ ٹو کہہ سکتے ہیں، جبکہ ان کی چھوٹی بہن ماریہ تور پکئی وزیر نے ملالہ بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سکرٹ پہن کر سکوائش کھیلنے والی ماریہ تور پکئی اور عائشہ گلالئی کا والد اور والدہ دونوں وزیرستان کے مشہور اینٹی طالبان رہے، سوات میں ملالہ ڈرامے کی شاندار کامیابی کے بعد وزیرستان سے شمس القیوم وزیر نے ضیاء الدین یوسفزئی بننے کی ٹھانی، اور اس کیلئے اپنی چھوٹی بیٹی ماریہ تور پکئی کو استعمال کیا، میں یہاں انہی کی زبانی اقرار کئے ہوئے کچھ ویڈیوز اور معذرت کیساتھ کچھ تصاویر اپلوڈ کر رہا ہوں تا کہ آپ کو یہ اچانک “تبدیلی”نمودار ہونے کی لاجک سمجھ آئے۔

 پہلی ویڈیو میں انگلینڈ اور کینیڈا میں پائی جانے والی ماریہ تور پکئی ایک غیر ملکی فورم ٹیڈیکس پر تقریر کرتے ہوئے قبائلی روایات، برقع، طالبان، پاکستان ، عورت پر ظلم، عورت کا قتل، عورت پر مظالم، وغیرہ کا وہ سکرپٹ ، جس سے شرمین عبید چنائے اور ملالہ نوازے گئے، قبائلی روایات اور بروق سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ماریہ تور پکئی کہتی ہیں کہ میں اپنے علاقے کی پہلی لڑکی ہوں جس نے سکرٹ پہن کر کھیلا، مجھے قبائلی روایات سے کوفت ہوتی تھی، میں نے اپنی روایات سے بغاوت کی، انگریزی زبان میں دئیے گئے اس تفصیلی انٹرویو میں سے میں نے ابتدائی کلپ لگایا ہے، باقی پورے انٹرویو میں وہی باتیں، جو ملالہ کی بدنام زمانہ کتاب میں لکھی گئیں.

دوسری ویڈیو اردو انٹرویو کی ہے، جو نیو ٹی وی چینل پر فواد چوہدری نے لیا، یہ انٹرویو مئی 2016 میں لیا گیا تھا، جب فواد چوہدری تحریکِ انصاف میں نہیں تھے، اس میں موصوفہ اپنی پوری کہانی سناتی ہیں کہ کیسے بغاوت کی، اور کیسے اس کے والد نے کہا کہ تم گھر سے باہر رہا کرو، ماریہ کہتی ہیں کہ میں لڑکوں کی طرح آزاد رہنا چاہتی تھی ، اس انٹرویو میں فواد چوہدری کہہ رہے ہوتے ہیں کہ عائشہ گلالئی آپ کی بہن ہیں، اور وہ بھی اس جنگ میں آپ کے ہمراہ ہیں، جبکہ درحقیقت عائشہ گلالئی ہی وہ مرکزی کردار ہے، جس نے ماریہ تور پکئی کو قبائلی لباس سے منی سکرٹ تک پہنچایا، اور مجھے اس بات پہ شدید حیرت ہورہی ہے کہ اپنے گھر سے اپنی بہن کو منی سکرٹ میں ملبوس کروانے تک عائشہ صاحبہ کو مغربی تہذیب کی ایک جھلک نظر نہ آئی، لیکن آج اچانک سے انہیں پختون روایات، غیرت، عزت اور مشرقی اقتدار یاد آگئے۔۔۔۔

یادش بخیر ! “مشرقی روایات” اور “پختونولی” سے لبریز ماریہ تور پکئی کی چند تصاویر لگا کر یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ “ضمیر” ایک دم نہیں جاگا کرتے، یہ حادثے ایک دم نہیں ہوتے، عائشہ گلالئی صاحبہ کا آج کا یہ سکرپٹڈ ڈرامہ ناز بلوچ سے قبل لکھا گیا تھا، وہ وہ تیر تھا، جو عین موقع پر پھینکنے کیلئے سنبھال کر رکھا گیا تھا، آج ایک فیس بکی پوسٹ کو لیکر جیو اینڈ جنگ گروپ نے جو تکرز اور سرخیاں چلائیں، اور اپنے اینکرز کو ظہر سے ابھی تک آن ائیر لے کر ایک تسلسل کے ساتھ جو “بدکردار” رپورٹنگ جاری ہے، اسے دیکھ کر یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ یہ کہانی کیا ہے، اور کس کے کہنے پہ ہے، ایک ہی سانس میں عمران خان بدکردار اور نوازشریف خاندانی قرار پاتا ہے، اسی دوران پوری ن لیگ متحرک ہوجاتی ہے، سوات سے ن لیگی رہنماء انجینئر امیر مقام عائشہ گلالئی کو ن لیگ میں شمولیت کی دعوت دیتا ہے، عائشہ گلالئی صاحبہ انہیں گرین سگنل بھی دے دیتی ہیں، لیکن عقل بھی کسی شئے کا نام ہے، عائشہ گلالئی کو استعمال کرنے والوں نے سکرپٹ بھی شاید کسی عابد شیر علی سے لکھوائی، اور بیچاری سادہ لوح گلالئی سازشیوں کی ٹریننگ نہ ہونے کے باعث پہلی ہی سیڑھی پہ گر پڑیں۔
اب یہ آخر میں کچھ تصاویر آپ کو دکھاتا چلوں، جس میں “بدکردار عمران خان” عائشہ گلالئی کے اگے سر جھکائے کھڑا ہے، اور نہایت توجہ سے اس کی بات سن رہا ہے، گلالئی صاحبہ کو 2013 سے اب تک عمران کے کردار کا علم نہ ہوا، اس وقت بھی نہ ہوا جب ریحام خان کا ڈرامہ ناکام ہوا، جب جاوید ہاشمی جیسے چلے ہوئے کارتوس بار بار بول رہے تھے، موصوفہ کا ضمیر تب بھی نہ جاگا ، جب ناز بلوچ تحریک چھوڑ چلیں، لیکن شاید ناز بلوچ ایک ٹپیکل پولیٹکل ورکز ہے، اس لئے اس نے اختلاف کا بہانہ بنایا بھی تو اس مؤقف میں کوئی جان تھی، جبکہ عائشہ گلالئی بے چاری کسی عابد شیرعلی کی لکھی سکرپٹ میں ماری گئی۔۔۔۔

اب آخری بات کئے دیتے ہیں ، کہ یہ ضمیر کیسے جاگا، وہ یوں جاگا کہ ن لیگ کے امیر مقام سے کئی ہفتوں سے رابطوں میں رہنے والی گلالئی کسی بھی موقع پر ” اخلاقی خودکش دھماکہ” کرنے کی تیاریوں میں تھیں، موصوفہ کو اپنی مفت کی سیٹ پکی ہونے کا یقین تو تھا ہی، لیکن راہیں جدا کرنے کیلئے بھی کوئی بہانہ درکار تھا، اسی لئے موصوفہ نے گزشتہ روز بنی گالہ میں عمران خان سے ایک وفد کے ساتھ چار گھنٹے ملاقات کی، اس ملاقات میں این اے ون پشاور کا ٹکٹ مانگا، (وہ اہم ترین حلقہ جہاں سے بینظیر بھٹو، غلام بلور اور عمران خان الیکشن لڑے) جس پر عمران خان نے کہا کہ ٹکٹ کی تقسیم میرے ذاتی اختیار میں نہیں، بلکہ پارلیمانی بورڈ کے پاس ہے، پارلیمانی بورڈ جسے ٹکت دے گا، میرا فیصلہ وہی ہوگا، عمران خان کے دوٹوک جواب پر گلالئی صاحبہ نے خاتون ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کافی کوشش کی، لیکن عمران خان کے مسلسل انکار اور میرٹ پر زور دینے کے بعد عائشہ گلالئی صاحبہ پر راتوں رات الہام ہوا کہ عمران خان بدکردار بھی ہے، مغربی کلچر بھی لارہا ہے، یہ الہام چار سال مفت میں رکنیت اسمبلی کے مزے لوٹنے کے دوران نہیں ہوا، اور آج یہ عقد کھلا۔۔۔۔

عقل بھی کسی بھینس کا نام ہے صاحبو ! مانتا ہوں کہ تحریک انصاف سمیت ہر جماعت کے مخلوط اجتماعات خرافات سے بھرے ہوتے ہیں، گزشتہ سال ڈیڑھ سے خود تحریک انصاف کی قیادت نے بھی اس بات کو محسوس کیا، اسی لئے خواتین کیلئے الگ انتظام کیا جاتا ہے، مگر جس انداز سے عائشہ گلالئی نے سستی بات کی شاید انہیں آج رات بستر پہ آنکھ بند کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خیال آجائے کہ بڑی عجلت میں ایک غلیط گیم کا حصہ بنیں۔۔۔۔ باقی عمران خان اور پارٹی لیڈر شپ کو اس بات پہ غور کرنا چاہیئے کہ ان کے ارد گرد کے لوگوں میں کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا، جو بار بار ان پر یہ بات آجاتی ہے، جہاں تک عمران خان کے اس عمر میں بدکردار ہونے کی بات ہے تو میرا ذاتی خیال ہے کہ خان صاحب اس عمر میں اس پوزیشن پر نہیں، ورنہ کم از کم ریحام خان نہ بھاگتیں۔۔۔۔خیر ! یہ ایک مزاحیہ نکتہ ہے،

لیکن درحقیقت عائشہ گلالئی صاحبہ پر مجھے اتنا لکھنے کی ضرورت عمران خان کے حامی ہونے کی وجہ سے نہیں لکھنی پڑی، شاید یہ تصاویر بھی مناسب نہیں، لیکن ایک جانب آپ پٹھان کارڈ کھیلیں اور دوسری جانب ملالہ سیریز ٹو کی تیاریوں میں ہوں تو لوگوں تک حقیقت پہنچانا بنتا ہے، بلکہ یوں کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بیک گراؤنڈ کو دیکھ کر یہ سچ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ دھواں بلاوجہ نہیں اٹھا، کہیں آگ ضرور لگی ہے، پھر بھی جس انداز سے عائشہ گلالئی نے کہا کہ “عمران خان کے ہاتھوں خواتین کی عزت محفوظ نہیں” پھر انہیں “ایک نمبر پٹھان” ہونے کے ناطے تھوڑی مزید جرات کرکے ان خواتین کو بھی سامنے لانا چاہیئے ، جن کی “عزت” عمران خان کے “ہاتھوں” محفوظ نہ رہی، ان خواتین اور عمران خان بشمول عائشہ گلالئی کا میڈیکل کروالیا جائے، تحقیقات ہوجائیں تو سب سامنے آئے گا، لیکن بی بی ! کھلاڑی اتنی کچھی گوٹیاں نہیں کھیلتے۔۔۔ اگر گیم کھیلنی ہی تھی تو ریحام خان اور ناز بلوچ سے ہی ایک آدھ ٹیوشن لے لی ہوتی۔۔۔!!
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں