333

گاؤ تکیہ

 

حسن نثار کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے پچھلے 5 سو سالوں میں چارپائی کے علاوہ کچھ ایجاد نہیں کیا جبکہ میری تحقیق ہے کہ تکیہ اور خاص طور پر “گاؤ تکیہ” بھی مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے. دنیا کی کسی اور قوم میں اتنا ٹیلینٹ نہیں کہ اتنی شاندار شے ایجاد کرسکے. بندہ کتنا شاندار لگتا ہے اس پر اپنی کمر ٹِکائے…. نیم دراز… نا لیٹا ہوا سا… نا بیٹھا ہوا سا.

آج کل تو جتنے بھی شاندار ریسٹورنٹس ہیں. سب نے چار پائیاں اور گاؤ تکیے رکھے ہوئے ہیں. حقہ بھی دستیاب ہے. مٹی کے برتنوں میں کھانا بھی serve کیا جارہا ہے.

یو لگ رہا ہے انسان اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے. یا ترقی سے تھک گیا ہے. اب سَستانا چاہ رہا ہے. خیر ترقی سے تھکنا تو ہم اور قوموں کے لئے کہہ سکتے ہیں. ہم تو بغیر ترقی کئے تھک گئے ہیں. شاید دوسروں کو ترقی کرتا دیکھ کر ہماری سانسیں پھول گئی ہیں.

دراصل ہمیں ترقی کرنے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں. بہت سے اخلاقی، مذہبی مسائل نمٹانے ہیں. سائنس کا کیا ہے. دنیا کررہی ہے نا سائنس کی خدمت. ہم نے اگر کچھ نہ کیا سائنس کے لئے تو دنیا کونسی بھوکی مرجھائے گی بلکہ دنیا کو بھی چاہئے کہ وہ سائنسی ایجادات کو رکھے ایک طرف اور پہلے ہم سے آکے مسلکی، فرقہ وارانہ اور مذہبی موضوعات پر سبق لے.. تاکہ دنیا کی دنیا بھی سُدھرے اور آخرت بھی.

ہم سے اگر خدا بھی پوچھتا نا کہ تمہیں اسٹیفن ہاکنگ چاہیے یا خادم رضوی. تو ہماری پوری قوم چینخ چینخ کہتی.

” خادم رضوی… خادم رضوی”

خدا سے کہتے کہ یہ اسٹیفن کو تو تُو رکھ اپنے پاس یا پھر گوروں کو دیدے. ہم کیا کریں گے اس اپاہج کو لے کے.. یہ تو ہمیں پلکوں کے اشاروں سے ہی مار دے گا. ہم کہاں اس کے اشاروں پر خلاؤں میں مارے مارے پھریں گے اور بلیک ہول میں جا گریں گے.

ہمیں تو تُو خادم رضوی ہی دیدے. دھرنا بھی دے گا اور ہمارے بچوں کو نئی نئی گالیاں بھی سکھائے گا.

بھئی کچھ بھی ہے… ہے تو ہمارا پیٹی بند.. میرا مطلب ہے کلمہ گو بھائی.

اپنا تبصرہ بھیجیں