264

سیاسی کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔

ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ اس امر پہ گواہ ہے کہ سیاستدانوں یا طالع آزماوں نے،ہمیشہ ذاتی مفادات کو ملکی مفاد کہہ کر سماج کے سیاسی شعور کو یرغمال بنایا اور نتیجہ میں ملک و ملت کو نقصان ہوا۔ یہ طریق بہت پرانا اور اپنے پس منظر میں خاص مقاصد رکھتا ہے، کہ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔حکومت میں آنے والی سیاسی جماعتیں ایسا تسلسل سے کہتی رہتی ہیں، مگر بتاتی نہیں ہیں کہ کون،اور کیوں سازش کر رہا ہے۔مگر سب سیاسی جماعتوں کا اشارہ فوج کی جانب ہوتا ہے۔ اس بار ساتھ عدلیہ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

طاقت کے مراکز ہمیشہ ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے ہیں۔ حکومت کا مگر یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے درمیان ورکنگ ریلیشن کو بہتر کرتے ہوئے،ان پہ عوامی اعتماد کو بڑھائے اور ہر ایک ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے پر پابند کرے۔ یہ مگر اس وقت ہوتا ہے جب حکومت خود پارلیمانی قراردادوں اور کارروائی کو سنجیدے لے، اور حکومتی اراکین، بالخصوص کابینہ کے اراکین ذاتی منفعت و مفاد کے بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ سیاسی و فوجی حکومتوں پہ بہر حال یہ الزام ہے کہ کرپشن کرتی ہیں۔ 
کرپشن صرف ہمارے ملک کا ہی نہیں بلکہ ہر ملک اور سماج کا مشترک مسئلہ ہے۔یہ مسئلہ اس وقت اور سنجیدہ اور توجہ طلب ہو جاتا ہے جب حکمران طبقہ پر یہ الزام ہو کہ، حکمران طبقہ اپنی سیاسی و سماجی حیثیت کو اپنی خاندانی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اپنے ہم نواوں کو بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ،کہ جو ملک پہ باری باری حکومت کرتی آ رہی ہیں، ان کی قیادت و سرکردہ رہنماوں پہ یہی الزام ہے کہ انھوں نے کرپشن کو فروغ دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔پیپلز پارٹی کی تین حکومتیں کرپشن کے الزام میں گئیں،مسلم لیگ نون کی دوحکومتیں اسی بنیادی الزام کا نشانہ بنیں۔
اب ملک میں ایک تیسری سیاسی جماعت نے اپنی زوردار موجودگی کا احساس دلایا ہے اور ایک صوبے میں حکومت بھی بنائی ہوئی ہے، اس کا نام پی ٹی آئی ہے۔ چونکہ اس جماعت کو پہلی بار حکومت ملی ہے، اور وہ بھی ایک صوبے میں،اور اس جماعت کی قیادت ابھی اقتدار میں نہیں آئی تو،عمران خان پہ اس طرح کا کوئی الزام نہیں کہ انھوں نے قومی خزانے سے خرد برد کی ہو۔ البتہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت پہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ عمران خان پہ لگنے والے دیگر الزامات زیر بحث نہیں ہیں۔ 
اصل مسئلہ قومی خزانے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا ہے۔ آشکار چیزوں کو تسلیم نہ کرنے والوں کی بات دوسری ہے۔البتہ جے آئی ٹی کی رپورٹ،کوئی “جناتی عمل “نہیں۔ ہمیں جے آئی ٹی کے اراکین کو ان کی محنت اور کام کی داد دینا چاہیے۔ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ اگر ہمارے ادارے کام کرنا چاہیں تو مشکل نہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے کتنا ہٹ کر کام کیا؟ آیا سفارشات مرتب کرنا بھی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ تھا؟ یا اس نے صرف رپورٹ مرتب کرنا تھی؟ اور وہ سارے سوالات جو حکمران خاندان اور ان کے حلیف اٹھا رہے ہیں، یہ سپریم کورٹ میں ضرور زیر بحث آئیں گے۔اہم سوال مگر یہ ہے کہ اداروں کو بدنام کرنے کی باقاعدہ مہم ملک وملت کے مفاد میں نہیں۔
دشمن قوتیں پاک فوج کو بد نام کرنا چاہتی ہیں، بھارتی اخبار کی خبر اس پہ دلیل ہے، کہ اگر نواز شریف چلے گئے تو پاک فوج مضبوط ہو جائے گی اور کشمیر کی صورتحال مزید خرب ہو گی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں تو وہاں اراکین جذباتی تقریریں کرتے ہیں۔ نم دیدہ ہو کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ہر حال میں شریف خاندان کا ساتھ نبھائیں گے، کچھ قصیدہ نویس یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم، آپ پہ کرپشن، بد عنوانی اور کمیشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور پانامہ لیکس، حکومت کے خلاف سازش ہے۔ یہ سارا عمل شریف خاندان کو مہمیز کرتا ہے کہ آپ ڈٹ جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
دراصل شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات کو ملک اور جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینا، بجائے خود ملک کے خلاف ایک سازش ہی تو ہے۔ کیا اتنے بڑے ملک کو چلانے کے لیے ایک خاندان اور اس خاندان کے چند افراد ہی ناگریز ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ 20 کروڑ عوام کی مجموعی صلاحیتوں پہ سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم صاحب مستعفی ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔ شہ کے مصاحب مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ مستعفی نہ ہوں۔ شاید اسی میں قصیدہ کاروں کا مفاد ہے۔ اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ نون لیگ کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ سی پیک کے ساتھ البتہ جے آئی ٹی، رپورٹ کو جوڑنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ وزیر اعظم صاحب پہ منحصر ہے کہ وہ ملک اور پارلیمان کو اس بحران سے کیسے نکالتے ہیں۔ جتنا وقت سازشیں تراشنیں اور ڈھونڈنے میں لگایا جا رہا ہے، اگر اسی وقت میں وزیر اعظم صاحب اور ان کے مشیر موجودہ بحران کے کسی احسن حل کی تلاش کریں تو ممکن ہے کشیدگی اس درجے تک نہ بڑھے کہ کوئی انہونی ہو جائے۔ یہ بات بڑی حیرت افروز ہے کہ حکومت ہی اپنے ملک کے ممتاز اداروں کی رپورٹ کو سازش، الزام تراشی اور بہتان کہہ کر ،اداروں کے مفلوج ہونے اور سازشوں میں شریک ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بجائے خود حکومت کی کمزوری اور ناکامی ہے۔ (مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں