206

بلاعنوان

میں اپنے ایک سعودی دوست کے ساتھ مدینہ المنورہ سے القصیم کی طرف روانہ تھا سفر لمبا تھا اس لیئے ہم بہت ساری خوش گپیوں میں مصروف تھے بلآخر ان خوش گپیوں سے نکل کر ہمارا موضوع ملکی حالات پہ جا پہنچا دو شکوے میں نے اپنے حکمرانوں کے سنائے تو چار شکوے وہ بھی اپنے موجودہ حکمرانوں کے لیئے بیٹھا تھا۔

ہم نے ایک دوسرے کے ملکی حالات پہ خوب بحث کی آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے حکمران نا اہل ہیں اس سعودی دوست نے گاڑی سڑک کنارے لگائی نیچے اترا اور کہا کہ گاڑی تم چلاؤ میں تمہیں اپنے ایک جراءت مند بادشاہ کی کہانی سناتا ہوں، میں نے گاڑی ڈرائیو کرنے سے معذرت کی مگر اس کے کافی اصرار پہ میں ڈرائیونگ سیٹ پہ آگیا اس نے کہانی اس شرط پہ شروع کی کہ اس کیبعد تم بھی مجھے اپنے کسی ایک بادشاہ کی کہانی سناؤ گے جس پہ میں متفق ہو گیا۔
سفرجاری تھا اور اس نے اپنے جرات مند بادشاہ کی کہانی سنانا شروع کی۔

” ایک سرکاری دورے پر شاہ فیصل (شہید) برطانیہ تشریف لے گئے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس برتنوں کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی۔
سب لوگوں نے چمچے اور کانٹے استعمال کئے لیکن شاہ فیصل نے سنتِ نبوی کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا کھایا۔ کھانا ختم ہوا تو کچھ صحافیوں نے شاہ فیصل سے چمچہ استعمال نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔ شاہ فیصل نے کہا:” میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں جو آج میرے منہ میں ہے اور کل کسی منہ میں جائیں گا۔ یہ ہاتھ کی اُنگلیاں تو میری اپنی ہیں۔
یہ تو ہمیشہ میرے منہ میں جائیں گی اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔“
ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورے پر آیا۔ وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا۔ اس دوران وفد کے ارکان نے سعودی عرب میں
امن و امان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا۔
انھوں نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ انھیں لگا یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
وفد کو یہ بھی معلوم ہو اکہ دہرے جرائم میں مجرموں کو سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ امریکا میں توا یسی سزاوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ وفد کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاوں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔ یہ تو سراسر انسانی حقوق کے خلاف ہے۔صحافی کے اس چبھتے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شگن دیکھنے میں نہ آئی، بلکہ انھوں نے اس صحافی کی بات کو تحمل سے سنا۔جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے۔ صحافی یہ سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لا جواب کر دیا ہے۔ کچھ دیر رُک کر شاہ فیصل بولے، ” کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے ہیں؟“ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔ اس کے بعد شاہ فیصل نے کہا” ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔ ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے اداکروں گا۔ اس کے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو دن کے بعد آپ کی امریکہ واپسی ہوگی۔کیا وہ زیورات پہنے ہوئے آپ اور آپ کی خواتین بلاخوف وخطر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے؟“
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منہ تکنے لگے۔

شاہ فیصل نے دوبارہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا” بلا خوف وخطر ائیرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔“
شاہ فیصل نے جواب دیا۔” سعودی عرب میں اتنی سخت سزاوں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔

عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ یوم کپور میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔
اس نے بتایا کہ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں آپ کا ملک پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں پنا نام امر کیا جو کہ میں اس بات سے لا علم تھا۔

اس جنگ کے دوران شاه فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزار ی تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔

شاه فیصل مرحوم کا یہ فیصلہ امریکہ کیلئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔ امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر نے شاه فیصل مرحوم سے 1973 میں اسی سلسے میں جدہ میں ایک ملاقات کی۔تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کرنے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شاه فیصل مرحوم سے کہا کہ اے معزز بادشاہ، میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے، کیا آپ اس میں تیل بھرنے کا حکم نہیں دیں گے؟ دیکھ لیجئے کہ میں آپ کو اسکی ہر قسم کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔

کسنجر خود لکھتا ہے کہ میری اس بات سے ملک فیصل مرحوم کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، میں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں نماز کی دو رکعتیں پڑھ لوں، میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟ ”

سعودی دوست نے میرے کندھے پہ ہاتھ مارا اور کہا کہ اب تمھاری کہانی….!!

میں نے اپنے ناقص علم کو ماضی میں لے گیا ہر ایک حکمران کی تعریف نما کہانی بنانے کی کوشش کرتا رہا مگر مجھے اپنا کوئی حکمران قابل تعریف نا ملا
میں نے واپس دوست کے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھا اور کہا

” یاصدیق یا حبیب واپس آکے گاڑی سنبھالو مجھے نیند آ رہی ہے “

اپنا تبصرہ بھیجیں