218

بگیا لہولہان۔

ایک مرتبہ پھر زمین معصوم لوگوں کے خون سے سرخ نظر آ رہی ہے۔ خون کی ندیوں میں ایک مرتبہ پھر سیلاب کی صورت حال ہے۔ اس مرتبہ پشاور کے اسکول میں ٢٠٠ بچے نہیں ذبح ہوئے۔ لاہور میں منہاج القرآن کے باہر خواتین کو گولیوں سے چھلنی نہیں کیا گیا اور نہ کسی بزرک کو داڑھی سے پکڑ کر گھسیٹا گیا ہے۔ گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے نہیبں توڑ رہا۔ داتا دربار پہ حملہ نہیں ہوا اور نہ سیھون شریف درگاہ پہ حملہ ہوا ہے۔ کراچی میں خود کش حملہ نہیں ہوا۔ افغانستان کی کسی مسجد میں نمازی نہیں مرے اور نہ ہی عراق میں کسی خود کش نے اپنے آپ کو اڑانے کی کوشش کی ہے۔ اس مرتبہ دشمن نے اصل چہرہ دکھایا ہے۔ مسلمانوں کے خون کا پیاسا دشمن، گذشتہ دو سال سے برما میں معصوم اور بے گناہ مسلمان شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ جوانوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور بوڑھوں کو تشدد کے بعد ہلاک کیا جا ریا ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ ماؤں کے پیٹ چاک کئے جارہے ہیں۔


سویڈش روزنامہ ڈی این لکھتا ہے کہ شمالی برما کے مسلمانوں کے ساتھ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اپارتھائیڈ سے بھی برا سلوک کیا جا رہاہے ۔ اس اخبار نے نیوز اپ ڈیٹ میں لکھا ہے کہ اب تک صرف چند دنوں میں 300 لوگ قتل ہو چکے ہیں اور لگ بھگ 50،000 افراد بنگلہ دیش کی سرحد پہ پہنچ چکے ہیں۔ ٨٠ ہزار لوگ بنگال کے جنگلوں میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

میرا سوال کسی انسانی حقوق کی تنظیم سے نہیں ہے اور نہ ہی میں اقوام متحدہ سے گذارش کر رہا ہوں۔ مجھے سپر پاورز سے بھی کچھ توقع نہیں ہے۔ اگر سوال ہے تو مسلم ممالک سے ہے۔ یہ خاموشی کب تک اور کیوں؟ کیا تاریخ میں آپ بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونا چاہتے ہو؟ کہاں گئے سب مسلمان ممالک اور کہاں گیا 41 ممالک کا اتحاد؟ کیا یہ اتحاد غیر فطری نہیں تھا اگر فطری تھا تو اب تک اتحاد کے کمانڈر کی آواز کیوں بلند نہیں ہوئی؟

اگر ایک یہودی دنیا کے کسی بھی حصہ میں مر جائے تو اسرائیل کی حکومت فوراً ایکشن لیتی ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنا خون ہی نظر نہیں آتا۔ اگر یہی حال رہا تو ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سانس رکنے سے انسان مر جاتا ہے اور احساس ختم ہونے سے انسانیت مر جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ موجودہ مسلمانوں میں احساس ختم ہو چکا ہے اور ہمارا انسان مر چکا ہے۔

برے وقت میں انسان اپنوں کی طرف دیکھتا ہے۔ اگر برما کے مسلمان مسلم ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔

ابھی تک کسی بھی مسلم حکومت نے اپنا احتجاج تک ریکارڈ نہیں کروایا۔ کیوں؟ اگر مسلمانوں کا قتل عام قابل شرم اور قابل مذمت ہے تو مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی اس سے بھی کہیں زیادہ قابل شرم اور لائق صد مذمت ہے۔

سابقہ پاکستانی ہونے کے ناطے میں حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر برما میں مسلمانوں کی نسل کشی پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرے۔ میں پاکستان کے عزت مآب سفیر کی خدمت عالیہ میں گذارش کرتا ہوں کہ وہ سویڈن میں مقیم پاکستانیوں کا پیغام حکومت پاکستان کے گوش گذار فرمائیں۔

تمام مسلمان ممالک کو چاہئے کہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس خونریزی کو بند کروائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ادارے میں برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔

41 ممالک کے اتحاد کے سربراہ کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومت اور اتحاد کے پلیٹ فارم سے اس خونریزی پر برما کی حکومت سے براہ راست رابطہ کرکے اس ظلم کو بند کروائیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں