Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
270

ایم کیو ایم کا مرکز میں تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا امکان

کراچی — وفاقی حکومت کے قیام کے لئے تحریک انصاف متحدہ قومی موومنٹ کا ساتھ حاصل کرنے میں تقریبا راضی ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کو وفاق میں حکومت سازی کے لئے اتحاد میں شمولیت کے لئے دعوت دے دی ہے۔ ایم کیو ایم نے دعوت کا خیر مقدم کرتے ہوئے معاملہ “رابطہ کمیٹی کے سپرد” کر دیا ہے۔

اس بات کا اعلان تحریک انصاف کے سینیر راہنما جہانگیر ترین اور ایم کیو ایم کے سینئر راہنماؤں کے مشترکہ اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کا وفد جہانگیر ترین کی قیادت میں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے عارضی مرکز بہادرآباد پہنچا جہاں وفود کی سطح پر دونوں جماعتوں کے درمیان ملاقات ہوئی۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کئی نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ کراچی کے عوام نے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو مینڈیٹ دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ مثبت مذاكرات ہوئے، آگے چلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اور پارٹی کے بجائے کراچی کے عوام کا سوچیں۔ ضروری ہے کہ کراچی میں پانی و سیوریج کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ماس ٹرانزٹ منصوبے پر عمل کیا جائے۔ کچرے کی صفائی سمیت لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ہمارے منشور کے مطابق بلدیاتی نظام اہمیت کا حامل ہے۔ کے پی کے میں سب سے بہتر بلدیاتی نظام موجود ہے جسے پنجاب سمیت پورے ملک میں رائج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مرکز میں حکومت تحریک انصاف کی بنی تو وفاق بھرپور طریقے سے کراچی کی ترقی میں شریک ہوگا۔

جہانگیر ترین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ ایک بہت پرانا معاملہ ہے فی الحال صوبوں میں بلدیات کا نظام اچھا لانا ضروری ہے اسے حل کرنے سے کراچی کے مسائل حل ہوں گے، ایم کیو ایم سے وزارتوں کے معاملے پر فی الوقت کوئی بات نہیں ہوئی۔

ایم کیو ایم کے راہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہا تھا کہ ان کی جماعت کو امید ہے کہ تحریک انصاف بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لئے اختیارات وفاق سے صوبے تک تو آ گئے تاہم صوبوں سے بلدیاتی اداروں تک پہنچانا بھی ضروری ہیں۔ خالد مقبول کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی کراچی سے وابستہ ہے اسے طاقت اور ترقی دی جائے۔ ہم نے شخصی یا پارٹی مفادات کے بجائے قومی مفاد پر بات کی ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ جہاں جتنا مینڈیٹ ہو وہاں اتنے اختیارات ہونے چاہئیں۔ پورے ملک میں مزید صوبے بننے چاہییں۔ پورے ملک میں مضبوط بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔

دونوں راہنماؤں کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں جسے جو بھی اعتراض ہے اس پر قانونی چارہ جوئی متاثرہ فریق کا حق ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان تعاون کی صورت میں بھی اس مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.

فاروق ستار نے کہا کہ پولنگ میں دھاندلی کے معاملے پر ہمارا احتجاج جاری رہے گا کیوں کہ تحریک انصاف نے بھی کہا ہے کہ معاملہ شفاف ہو جائے تو بہتر ہے۔

ایم کیو ایم راہنماؤں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی پیش کش پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھی جائے گی اور یقین ہے کہ ہمارے درمیان تعاون قائم ہوگا۔ ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی کی جانب سے تحریک انصاف سے تعاون کی توثیق اب صرف رسمی کارروائی ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایم کیو ایم ن لیگ کے بجائے حکومت سازی میں تحریک انصاف کے کیمپ میں ہوگی۔

اس سے قبل مستعفی گورنر سندھ اور مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر بھی ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کرنے پہنچے ۔ ن لیگ کے کیمپ میں شمولیت کی دعوت دی جس پر ایم کیو ایم قیادت نے رابطہ کمیٹی سے مشورے کے بعد جواب کا کہا تھا۔

مبصرین کے مطابق محمد زبیر کے بجائے تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین اور ان کے وفد کی آمد پر ایم کیو ایم کی جانب سے زیادہ گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ اسمبلی میں ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومتی بینچوں پر براجمان ہوگی۔ لیکن یہ پہلی بار ہوگا کہ ایم کیو ایم حکومتی بینچ پر تحریک انصاف کے اتحادی کے طور پر بیٹھے گی ۔ ایم کیو ایم نے حالیہ انتخابات میں چھ نشستیں حاصل کی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے ان چھ نشستوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے کراچی میں ایم کیو ایم ہی کا مینڈیٹ حاصل کرکے متحدہ کو کافی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس بار ایم کیو ایم کراچی کی 21 میں سے محض چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ تحریک انصاف شہر سے بھاری مارجن کے ساتھ 14 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ گزشتہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو 20 میں سے 18 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں