285

توبہ کا دروازہ اور اللہ کی بخشش۔

ریاض علی خٹک (اردونامہ)
وحشی وہ وحشی جس نے جنگ اُحد میں حضور صل اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا. فتح مکہ پر بھاگ کر طائف میں پناہ لیتا ہے. پھر طائف کہ ایک وفد کے ہمراہ آ کر اسلام قبول کرتا ہے. حمزہ کی شہادت اور ظلم کی شہادت کی داستان سناتا ہے.

نبی علیہ السلام رنج و غم میں ڈوب جاتے ہیں. لیکن معاف کرتے ہیں. اور کہتے ہیں تو بس اتنا وحشی تم میرے سامنے نہ آیا کرو.

لیکن جب یہی وحشی پوچھتا ہے. کہ کیا اللہ مجھے بھی بخش دے گا.؟ تو قرآن کی آیت نازل ہوتی ہے. ترجمہ

” اے حبیب آپ فرما دیجئے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر حد سے زیادہ گناہ کرلیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجائے. اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا. وہ یقیناً بڑا بخشنے والا اور بہت مہربان ہے.”

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مسیلمۃ الکذاب نے نبوت کا دعوٰی کیا. لشکر اسلام نے اس معلون سے جہاد کیا. تو یہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ تھے جن کے نیزے کا شکار یہ کذاب بنا. یہی وحشی رضی اللہ کہتے تھے قتلت خیر الناس فی الجاھلیۃ و قتلت شرالناس فی الاسلام. یعنی میں نے دور جاہلیت میں بہترین انسان کو قتل کیا اور دور اسلام میں بدترین انسان کو.

اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کیلئے توبہ کا در کھلا رکھا ہے. انسان اپنی ذات پر اور دوسرے کیلئے توبہ کی ترغیب پر سزاوار ہے. دوسروں کو دین سے نکالنے کے فتوے نہیں دین پر بلانے کا کام ہماری ذمہ داری ہے. گناہوں پر توبہ کرنا اور توبہ کی تلقین ہماری ذمہ داری ہے. دین کے دروازے کے ہم دربان نہیں. نہ ہم کسی کی توبہ کا دروازہ بند کرسکتے ہیں.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں