140

اونچے پیڑ

میرے ایک دوست کو نامور لوگوں اور خاص طور پر پاکستان کے مشہور سیاستدانوں سے تعلقات استوار کرنے کا بڑا شوق ہے۔ اس دوست کا آبائی تعلق راولپنڈی سے ہے۔ وہ گذشتہ 30برس سے لندن میں مقیم ہیں۔ کامیاب تاجر ہیں، اقتصادی خوشحالی کی وجہ سے اپنے مہمانوں کی آؤ بھگت میں بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے۔ جب یہ پاکستان میں تھے تو اپنے شہر کے ایک عوامی سیاستدان سے بہت مُتاثر تھے۔ یہ سیاستدان مختلف ادوار میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ کئی بار وزیر بنے، لندن بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ کئی برس پہلے ایک بار وہ لندن آئے تو اُن دِنوں وہ حزب اختلاف میں تھے۔ راولپنڈی والے میرے اس دوست نے مذکورہ سیاستدان سے رابطہ کیا اور لندن میں قیام کے دوران موصوف کی میزبانی کی حامی بھر لی۔ اس سیاستدان نے ٹوتھ برش اور سگار سے لے کر ضرورت کی ہر شے کی ذمہ داری میرے اس دوست پر ڈال دی۔ چند روز کی خاطر مدارت کے بعد میرا یہ دوست زچ ہو گیا اور اس سیاستدان کو پاکستان روانہ کرنے کے بعد سکھ کا سانس لیا۔ وہ دِن اور آج کا دِن میرا یہ دوست پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں سے دور بھاگتا ہے لیکن اِن سیاستدانوں کو ہر بار کوئی نہ کوئی نیا اوورسیز میزبان مل جاتا ہے۔ اسی طرح میرے ایک اور کرم فرما کو پاکستان سے آنے والے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ملنے اور اُن کی میزبانی کا بڑا شوق تھا۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے اور نامور شاعر سے وہ بہت متاثر تھے۔ ایک بار یہ شاعر امریکہ سے واپسی پر لندن رکے تو میرے اس دوست نے اُن سے رابطہ کر کے انہیں اپنے گھر ٹھہرانے اور مہمان نوازی کی پیشکش کی۔ یہ مشہور شاعر (جن کے ایک بیٹے آجکل پاکستان کی سینٹ کے رکن بھی ہیں) جب میرے دوست کے وسیع اور شاندار گھر میں قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے اپنے قیام کے دوران میزبان موصوف کی ناک میں دم کر دیا جس کے بعد وہ کسی بھی مشہور شاعر یا نامور اہلِ قلم کی کسی بھی طرح کی میزبانی سے تائب اور اس شعر کی صداقت کے بھی قائل ہو گئے کہ 

قدوقامت سے نہ شخصیت کا اندازہ لگا

جتنے اونچے پیڑ ہیں  اُتنا گھنا سایہ نہیں 

برطانیہ اور خاص طور پر لندن آنے والے نامور پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنے مالی وسائل کو اپنے اوپر خرچ نہ کرے یا اُن کی رہائش، آمدورفت، خوراک اور شاپنگ کا خرچ بھی کوئی متمول اوورسیز پاکستانی اُٹھا لے۔ گورے جب کسی دوسرے ملک کے دورے یا ہالیڈیز پر جاتے ہیں تو اپنی فلائیٹ، قیام اور تمام ضروری اخراجات کا بندوبست کر کے اپنے گھر سے باہر قدم نکالتے ہیں۔ لندن ایک گنجان آباد شہر ہے۔ یہاں گھروں میں رہائش کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔ برطانوی دارالحکومت دنیا کے چند مہنگے ترین اور مصروف ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ لندن میں اگر کوئی پاکستانی یا قدردان اپنے کسی مہمان کی قدردانی اور میزبانی کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے قیمتی وقت اور وسائل سے اپنے مہمان کی عزت افزائی کر رہا ہے لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی اکثریت تارکینِ وطن کے خلوص، مروت، اپنائیت اور میزبانی کے تقاضوں کا ناجائز فائدہ اُٹھاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان سے ادیبوں اور شاعروں کی ٹولیاں موسم گرما میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں آتی تھیں جہاں اُن کی بھرپور پذیرائی اور خاطر مدارت ہوتی تھی لیکن اِن اہلِ قلم میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اپنے میزبان سے ایسی بہت سی ”سہولیات“ کی فراہمی کا تقاضا کرتے تھے جن کی دستیابی کسی بھی وضع دار میزبان کے لئے ممکن نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کی مشہور شخصیات صرف چیرٹی ڈنرز میں بلائی جاتی ہیں اور خیراتی ادارے ہی ان کی میزبانی اور پذیرائی کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ صرف شاعر، ادیب اور سیاستدان ہی نہیں نامور پاکستانی صحافی بھی لندن آتے جاتے رہتے ہیں اور اِن صحافیوں کی اکثریت کی آمد ورفت، رہائش اور خریداری کا خرچہ کوئی اور اُٹھاتا ہے۔ یہ صحافی ویسے تو دیانتداری، حق گوئی اور اچھے کردار کے بارے میں بھاشن دیتے نہیں تھکتے لیکن اگر لندن اور یورپ میں اِن کی مصروفیات اور سرگرمیوں کا سراغ لگایا جائے تو اس حقیقت پر ندامت اور حیرانی ہوتی ہے کہ یہ پاکستانی میڈیا کی نمائندہ شخصیات ہیں جو بیرونِ ملک آ کر اپنے اداروں اور ملک کا نام ”روشن“ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے نامور اور مشہور شخصیات بڑی کشش رکھتی ہیں۔ اس لئے پاکستانی تارکینِ وطن ادب، سیاست، صحافت، فنونِ لطیفہ اور کھیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ممتاز لوگوں کی بہت پذیرائی کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں مشہور اور نامور لوگ دراصل بڑے لوگ ہوتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشہور لوگوں اور بڑے لوگوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر نامور یا مشہور انسان، بڑا انسان بھی ہو۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جن مشہور شخصیات کو ہم بڑا انسان سمجھ کر ملتے ہیں اُن سے ملنے کے بعد شدید مایوسی ہوتی ہے۔ یہ لازمی نہیں ہوتا کہ ہر بڑا انسان مشہور شخصیت بھی ہو یا کوئی نامور فرد بڑا انسان ہونے کے معیار پر بھی پورا اترتا ہو۔ شہرت بلاشبہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قدرت جب کسی کو اس نعمت سے نوازتی ہے تو بہت سے لوگ اس نعمت کے ملنے کے بعد مغرور اور خودپسند ہو جاتے ہیں۔ اسے اللہ کا کرم سمجھنے کی بجائے اپنا کمال اور خوبی سمجھنے لگتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں اور اُن سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جو گمنام تھے تو بہت ملنسار اور پرخلوص تھے لیکن شہرت کی بلندی پر پہنچنے کے بعد وہ یکسر بدل گئے۔ بڑا انسان بننا تو دور کی بات وہ معقول انسان بھی نہ رہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان کی اصلیت اس وقت پہچانی جاتی ہے جب اُسے شہرت، دولت یا اختیار ملتا ہے۔

میرا ایسی بہت سی مشہور شخصیات سے بھی واسطہ پڑا ہے جن کو قدرت نے دولت کی نعمت سے بھی سرفراز کیا لیکن وہ اپنی جیب سے ایک پاؤنڈ بھی خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ اُن کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی ہر ضرورت کسی دوسرے کی جیب سے پوری ہو۔ برطانیہ میں مشہور کھلاڑیوں اور نامور گلوکاروں کی بہت پذیرائی کی جاتی ہے۔ سیاستدانوں، شاعروں اور صحافیوں کے مداحوں کی تعداد بہت کم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ٹونی بلیئر اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں اپنی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لئے لندن کی زیرِ زمین ٹرین میں عام مسافروں کی طرح سوار ہو گئے اور ایک نشست پر جا بیٹے اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ایک خاتون کو ہیلو ہائے کر کے کہنے لگے کہ ”میں ٹونی بلیئر ہوں، برطانوی وزیر اعظم“، جواب میں خاتون نے کہا ”تو میں کیا کروں“ اور پھر یہ خاتون اپنا رخ بدل کر اخبار پڑھنے لگی۔ برطانوی دارالحکومت میں پارلیمنٹ سے ملحقہ ویسٹ منسٹر اسٹیشن پر دن بھر وزیروں مشیروں اور اراکینِ پارلیمنٹ کی آمد ورفت جاری رہتی ہے لیکن کوئی گورا انہیں روک کر نہ تو ان کے ساتھ کوئی سیلفی لینے کی زخمت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی درخواست انہیں تھما دیتا ہے۔ برطانوی سیاستدان بلاضرورت نہ تو ٹی وی اور اخبارات میں ہر روز کوئی بیان بازی کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے سیاسی کارنامے گنوا کر ہیرو بننے کا شوق ہوتا ہے۔ یہاں کے سیاستدان صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور اِن کا کام اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ اگر برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ اور سیاستدان نجی دورے پر بیرونِ ملک جائیں اور اُن کے قیام و طعام اور خریداری کے اخراجات کسی اور کی جیب سے ادا ہوں تو اس بات کا انکشاف ہونے پر اس سیاستدان کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور اس کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں سیاستدان اپنی سیاسی پوزیشن کی وجہ سے کوئی مالی منفعت حاصل کرتے ہوئے پکڑے جائیں یا اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کے مرتکب ہوں تو اُسے ناقابل معافی سیاسی جرم سمجھا جاتا ہے جس کا خمیازہ اس سیاستدان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں شہرت، دولت اور اختیار ایسے ہتھیار ہیں جس سے گمنام، غریب اور بے اختیار لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

٭٭٭