Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
258

کابل: خودکش حملے میں 48 افراد ہلاک

اسلام آباد — کچھ دِنوں سے افغانستان کے مختلف حصوں میں سنگدلانہ نوعیت کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ بدھ کے روز کابل کے ایک تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ ہوا جس میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہوئے، جو کہ افغان سکیورٹی فورسز کے لیے کڑا امتحان تھا۔

یہ دھماکہ ’موعود اکیڈمی‘ پر ہوا، جو شیعہ اکثریت والے قصبے میں واقع ہے۔ یہ دھماکہ اُس وقت ہوا جب طالب علم یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان دے رہے تھے۔ افغان طالبان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اس سے قبل کابل میں شیعاؤں کے خلاف ہونے والے حملوں کی داعش ذمے داری قبول کرتا رہا ہے۔

اس سے پہلے، آج ہی کے دِن، طالبان نے شمالی افغانستان میں صوبہٴ بغلان میں واقع ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا جس میں سیکورٹی کے 40 افراد ہلاک ہوئے۔
تقریباً اُسی وقت طالبان کے ایک مسلح گروپ نے صوبہٴ زابل میں قلات شہر کے قریب واقع ایک پولیس چوکی پر دھاوا بول دیا، جس میں متعدد پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ لڑائی میں متعدد طالبان بھی ہلاک ہوئے۔

ایک روز قبل، طالبان صوبہٴ فریاب کے قریب واقع ایک اور فوجی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حکام نے کہا ہے کہ فوجی اڈے پر70 میں سے 40 فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔

دریں اثنا، افغانستان میں اقوام متحدہ کے اعانتی مشن نے متنبہ کیا ہے کہ ملک کے دوسرے بڑے شہر غزنی میں پانچ روز سے جاری لڑائی سے آنے والی تباہی کے نتیجے میں، افغانستان کے عوام کو انسانی بحران درپیش ہوگا۔ طالبان نے گذشتہ جمعے کو حملہ کیا تھا جس کے بعد وہ شہر کے وسطی علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

مشن کے مطابق، گنجان آباد علاقوں میں جاری لڑائی سے 150 سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ سینکڑوں کی تعداد میں طالبان جنگجو اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ شہر کابل کے جنوب مغرب میں تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں بجلی بند ہے اور خوراک اور پانی کی عدم دستیابی درپیش ہے۔

رابطے اور انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر نے کہا ہے کہ شہر میں 270000 افراد پھنس کر رہ گئے ہیں اور متعدد مکین قصبہ خالی کر کے جا چکے ہیں۔ اسپتال میں مزید زخمیوں کی گنجائش نہیں رہی۔ لڑائی تھم چکی ہے اور یوں لگتا ہے کہ غزنی پر پھر سے سرکاری کنٹرول بحال ہوچکا ہے۔

خبروں کی افغان سائیٹ، ’پژواک‘ نے اطلاع دی ہے کہ وسطی صوبہٴ ارزگان کے دہرود ضلعے میں پچھلے 20 دِنوں سے 70 سکیورٹی اہلکار پھنس کر رہ گئے ہیں، اور اگر اُنھیں فوری مدد فراہم نہیں کی جاتی تو عین ممکن ہے کہ وہ طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ بظاہر شورش پسندوں نے علاقے کی طرف جانے والے رسد کے تمام راستے بند کردیے ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک اور ہتھیاروں کی دستیابی بند ہوگئی ہے۔

اس ماہ کے اواخر میں عید الفطر کے متبرک تہوار کے موقعے پر جنگ بندی کی توقعات مدھم پڑ گئی ہیں۔ جون میں رمضان کے آخر میں افغان حکومت اور طالبان نے سہ روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جو تقریباً دو دہائیوں کے دوران اپنی نوعیت کی پہلی جنگ بندی تھی۔

تشدد کی کارروائیوں میں اُس وقت اضافہ ہوا جب یہ خبر عام ہوئی کہ امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت کا آغاز کردیا ہے، تاکہ امن عمل کو شروع کرایا جا سکے۔

اقوام متحدہ کے اعانتی مشن کے مطابق، 2018ء کی پہلی شش ماہی افغان شہری آبادی کے لیے مہلک ترین تھی، جب کہ 2009ء سے اقوام متحدہ کے مشن نے شہری آبادی کےجانی نقصان کے اعداد اکٹھے کرنا شروع کیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں