249

کرتارپور راہداری اور ہمارا مستقبل

کرتارپور راہداری پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی راہداری ہے جو بھارتی پنجاب کے ضلع گرداسپور، میں ڈیرہ بابا نانک صاحب کو پاکستانی پنجاب کے ضلع ناروال میں واقع کرتارپور دربار صاحب سے منسلک کرے گی۔ یہ تقریباً ساڑھے چار کلومیٹر کا فاصلہ ہے، جو ڈیرھ کلومیٹر بھارت میں اور ساڑھے تین کلومیٹر پاکستان میں واقع ہے، اس راہداری پر پہلی دفعہ 1998 میں بات چیت شروع ہوئی تھی، لیکن بھارتی حکومت کی سردمہری کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ اس راہداری کا مقصد بھارت کے سکھ مذہبی عقیدت مندوں کو پاک بھارت سرحد سے محض 4.7 کلومیٹر دور واقع گردوارہ دربار صاحب کی زیارت کرنے میں آسانی پیدا کرنا ہے۔

اس راہداری منصوبے کا کریڈٹ تحریک انصاف کی حکومت، پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف، انڈین پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سِدّھو اور انڈین حکومت کے سر جاتا ہے۔ اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں جہاں وزیراعظم عمران خان نے اس راہداری کے ذریعے جرمنی اور فرانس کی طرز پر دشمنیاں مٹانے کی بات کی وہیں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس قدم کو دیوار برلن کے گرنے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے سے دونوں ممالک کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس راہداری کو نومبر 2019ء میں گرو نانک کے 550ویں یوم پیدائش سے پہلے حتمی شکل دی جائے گی۔یہ ایک سادہ سا راستہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مکمل کوریڈور ہے جس سے سکھوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کی قسمت بدل جائے گی، یوں سمجھ لیں پاکستان میں ایک ایسا تیل کا کنواں نکل آیا ہے، جسکا قیامت تک تیل خشک نہیں ہونا، اور اسکی قیمت پاکستان کی مرضی کے مطابق بڑھتی رہنی ہے۔

آپ حیران ہونگے کہ اس کوریڈور میں ایسا کیا ہے کہ اس سے پاکستانیوں کی قسمت ہی بدل جائے گی، اس تھیوری کو سمجھنے کیلئے ہمیں حقیقتوں اور اعدادوشمار پر غور کرنا پڑے گا۔

فرض کریں پاکستان اپنے باڈر پر اندر آنے کیلئے ایک ہزار انڈین روپے کی معمولی سی فیس رکھتا ہے، یہ رقم انڈیا میں ایک معمولی سی رقم ہے، اور انڈین سکھ برادری انڈین پنجاب میں پاکستانی پنجاب کی نسبت بہت خوشحال ہے، اور یہ رقم بہت آسانی سے دے دے گی۔ انڈین پنجاب اور باقی دنیا میں تقریبا ڈھائی کڑور سکھ رہتے ہیں، سارے سکھ ہر سال آنے عملی طور پر ممکن نہیں لیکن کئی سکھ سال میں کئی دفعہ بھی آئیں گے، اسلئے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ یہ ڈھائی کڑور ہی ہیں۔ اگر ایک ہزار کو ڈھائی کڑور سے ضرب دی جائے تو پچیس ارب انڈین روپے، یا پچاس ارب پاکستانی روپے، یا تقریبا” چالیس کڑور امریکی ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ اب یہی داخلہ فیس اگر پچیس سو انڈین روپے فی بندہ کر دیں تو سالانہ تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں جو امداد نہیں ہوں گے بلکہ ڈائریکٹ پاکستانی خزانہ میں آئیں گے اور پاکستانی اِنکم گنے جائیں گے۔

ابھی ہم نے صرف داخلہ فیس کا حساب کیا ہے، باقی اِنکم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی سرحد کے اندر تین کلومیٹر لمبی اور بہت کھلی ایک بڑی سڑک بنے گی جسکے دونوں اطراف کانٹے دار تار یا جنگلہ لگایا جائے گا، اس سڑک کے دونوں اطراف سینکڑوں کی تعداد میں دوکانیں، شاپنگ سنٹرز، ریسٹورینٹس، ہوٹلز، ایمیوزمنٹ پارکس، منی چینجرز، اور بنکس بنیں گے، دربار صاحب کے نزدیک فائیو سٹار ہوٹل بھی بن سکتا ہے، اس منصوبے میں انوسٹمنٹ تھوڑی اور منافع کئی گنا زیادہ ہے، اور اس سے پاکستانی پنجاب میں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آئے گا، لوگوں کو ہزاروں نئی نوکریاں ملیں گیں، سینکڑوں نئے کاروبار شروع ہونگے، اور یہ سلسلہ انشااللہ تا قیامت چلے گا، اور پاکستان کو لگاتار آمدن دیتا رہے گا، اور پاکستانی ڈوبتی معیشت کو ایک مضبوط سہارا مل جائے گا۔

دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی جنوبی ایشیاء اور چین میں رہتی ہے، اور مستقبل میں دنیا کی تجارت، سروسز، کاروبار، اور ٹیکنالوجی میں اس خطے کے رہنے والے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہوگا، یہاں بہترین موسم، اور سستی لیبر پائی جاتی ہے، اگر یہاں امن ہوجائے، لوگ مذہب کو اپنی نجی زندگیوں میں لے آئیں اور مجموعی طور پر سب تمام مذاہب کی عزت کرنا شروع کردیں تو مستقبل میں دنیا کی بڑی فیکٹریاں اور کاروبار یہاں منتقل ہوسکتے ہیں، اسکے لئے اس خطے کے لوگوں کو آپس میں بھائی چارہ، برداشت، باہمی عزت کو فروغ دینا ہوگا اور تعلیم پر ہنگامی بنیادوں پر فوکس کرنا ہوگا، ایسی صورت میں یہاں اتنی ترقی ہوگی کہ یہاں کے لوگوں کو روزگار کیلئے امریکہ یورپ نہیں جانا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں